امریکا نے بن لادن کی ہلاکت کے بعد دنیا کوگمرا ہ کیا ،وائٹ ہاؤس کی طرف سے القاعدہ کی جس طرح عکاسی کی گئی وہ ان دستاویزات کے متضاد تھی جو سامہ کے کمپاو نڈ پر حملے کے وقت وہاں سے قبضے میں لی گئی، دستاویزات سے 400 سے زائد رپورٹیں تیار کی گئی لیکن ان تما م انٹیلی جنس مواد کے تجزیے سے کچھ بھی حاصل نہیں کیا گیا اور کئی ماہ تک ان دستاویزات کو ہاتھ تک نہیں لگایا گیا،امریکی اخبار کی رپورٹ میں انکشاف

اتوار 8 مارچ 2015 10:20

واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔8 مارچ۔2015ء). امریکی خبار”وال اسٹریٹ جرنل“ لکھتا ہے کہ امریکا نے اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد امریکیو ں سمیت دنیا کوگمرا ہ کیا۔ وائٹ ہاو س کی طرف سے القاعدہ کی جس طرح عکاسی کی گئی وہ ان دستاویزات کے متضاد تھی جو سامہ کے کمپاو نڈ پر حملے کے وقت وہاں سے قبضے میں لی گئی۔۔ ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی کے سابق ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ ہمیں اب بھی القاعدہ کے بڑھتے خطرات کا سامنا تھا اور یہ صرف پاکستان اور افغانستان اور عراق سے نہیں تھابلکہ یمن سے بھی تھا۔

بیوروکریٹک جنگ کے بعد ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی اور سینٹ کام کے تجزیہ کاروں کی ایک محدود ٹیم کودستاویزات تک رسائی دی گئی۔ان دستاوزات کے تجزے کے مطابق اسامہ کی ہلاکت کے بعد اوباما نے جو مہم چلائی اور جو موقف اختیار کیا وہ ان دستاویزات کے برعکس تھا۔

(جاری ہے)

یہ وائٹ ہاو س اور اوباما نہیں سننا چاہتے اس لئے اوباما انتظامیہ نے دستاویزات تک DIA کی رسائی ختم کرکے تجزیے سے روک دیا تھا۔

دستاویزات کے مطابق بن لادن کو القاعد ہ پر مکمل کنٹرول تھا۔ بن لادن نے اپنے منصوبے پھیلا دیے تھے۔اسامہ کے کمپاو نڈ سے پندرہ لاکھ دستاویزات قبضے میں لی گئی جن میں سے دنیا کے سامنے صرف دو درجن لائی گئیں۔ان دستاویزات میں جولائی 2010کا ایک خط جس میں شہباز شریف کی طرف سے جہادیوں کے ساتھ ایک امن معاہدے کا ذکر ہے۔ یہ خط عطیہ عبد الرحمن کی طرف سے لکھا گیا۔

اس میں ذکر کیا گیا کہ حکومت طالبا ن کے ساتھ معمول کے تعلقات بحال کرنا چاہتی تھی القاعدہ نے مذاکرات کے دوران پاکستانی طالبان کی رہنمائی کا ارادہ کیا۔ اسی خط میں ذکر ہے کہ القاعدہ اور اس کے اتحادی پاکستانی فوج کے ساتھ اپنے مذاکرات میں مذاکراتی حربہ کے طور پر دہشت گرد حملوں کو استعمال کرتے ہیں۔ خط میں یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی خفیہ ایجنسی القاعدہ کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار تھی۔

القاعدہ نے میڈیا کو یہ بیان لیک کیا کہ پاکستان کو ہلاکر رکھ دینے والا زمینی آپریشن شروع کیا جارہا ہے۔ کچھ عرصے کے بعد القاعدہ نے یہ لیک کیا کہ انٹیلی جنس لوگ پاکستانی 'جہادی' گروہوں کے ذریعے ہم تک پہنچناشروع کر دیا ہے جن کی انہوں نے منظوری دی۔ ان میں سے ایک فضل الرحمان خلیل اور دوسرے حمید گل تھے۔ اسامہ کے کمپاونڈ پر کارروائی کرنے والی ٹیم کے مشن کے صرف دو مقاصد تھے،اسامہ کی ہلاکت اور اس کے کمپاو نڈ سے تما م ضروری دستاویزات حاصل کرنا۔

اسامہ کی ہلاکت کے بعد پنٹاگون کی طرف سے قبضے میں لئے گئے جس مجموعے کا ذکر کیا گیا ان میں دس ہارڈ ڈرائیو ایک سو یو ایس بی، ایک درجن موبائل فون، ہاتھ سے لکھی دستاویزات کے پلندے ،اخبارات اور جرائد تھے۔سنیئر انٹیلی جنس عہدے دار کا کہنا تھا کہ کسی بھی سینئر دہشت گرد سے حاصل مواد کس واحد سب سے بڑا مجموعہ ہے۔امریکا کے ہاتھ القاعدہ کی پلے بک بھی لگی تھی جس میں ان کی موجودہ کاروائیوں کی تفصیلات تھیں۔

سی آئی اے نے اس پر فوری ایکشن لیا۔ ڈائریکٹر آف نیشنل جنرل انٹیلی جنس کے مطابق دستاویزات سے چار سو سے زائد رپورٹیں تیار کی گئی۔ لیکن ان تما م انٹیلی جنس مواد کے تجزیے سے کچھ بھی حاصل نہیں کیا گیا اور کئی ماہ تک ان دستاویزات کو ہاتھ تک نہیں لگایا گیا۔ اسامہ کی ہلاکت کے ایک سال بعد انتخابات سے قبل اوباما نے القاعدہ کے ساتھ طویل جنگ کے خاتمے کا اعلان کیا۔

جس کے لئے اس نے امریکیوں کو قائل کرنے کی مہم چلائی۔وائٹ ہاو س نے ہاتھ سے سترہ دستاویزات ویسٹ پوائنٹ ملٹری اکیڈمی کے انسداد دہشت گردی سینٹر کے حوالے کی اور انہوں نے اوباما کی پسند کا نتیجہ اخذ کرکے دے دیا۔ان کے مطابق بن لادن کو الگ تھلگ کر دیا گیا تھا اور وہ ایک اداس اور تنہا آدمی کی طرح متزلزل نیٹ ورک پر براجمان تھے۔رپوٹ کے مطابق اوباما انتظامیہ کا یہ ایک غلط طریقہ تھا اور جو اس جنگ کی کامیابی کے ذمہ دار تھے وہ اس طرح کی خود فریبی کا شکار ہونابرداشت نہیں کرسکتے تھے۔لیفٹیننٹ جنرل مائیک کہتے ہیں کہ مرکزی کمان کے نیچے قیادت چاہتی تھی کہ ان دستاویزات کا انہیں پتہ چلے۔

متعلقہ عنوان :