عوامی تحریک کا سانحہ ماڈل ٹاؤن بارے آئی جی پنجاب کو جوابی خط،پولیس وزیراعلیٰ کی ہدایت پر ڈاکٹر طاہر القادری کے اہلخانہ کو قتل کرنیکی نیت سے آئی،ملزم پولیس کے نمائندوں پر مشتمل جے آئی ٹی متعصب اور جانبدار ہے،آئی جی پنجاب کی تعیناتی کے بعد بھی جھوٹے مقدمے درج ہوتے رہے ، خط کا متن،آئی ایس آئی، ایم آئی کے نمائندوں پر مشتمل جے آئی ٹی سے حکمران خوفزدہ کیوں ہیں؟

ہفتہ 7 مارچ 2015 09:01

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔7 مارچ۔2015ء) پاکستان عوامی تحریک نے جے آئی ٹی میں پیش ہونے سے متعلق 28 جنوری 2015 کو آئی جی پنجاب کی طرف سے لکھے جانے والے خط کا تحریری جواب دے دیا ہے۔ خط میں حکومتی جے آئی ٹی کے سامنے بیان قلمبند نہ کروانے کے حوالے سے 10 وجوہات کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہے۔اسلام آبادمیڈیاسیل کے مطابق جوابی خط میں لکھا گیا ہے کہ پنجاب پولیس وزیراعلیٰ کی ہدایت پر ڈاکٹر طاہر القادری کے اہلخانہ کو قتل کرنے کی نیت سے آئی ملزم پولیس کے نمائندوں پر مشتمل جے آئی ٹی متعصب اور جانبدار ہے، آئی جی پنجاب کی تعیناتی کے بعد بھی جھوٹے مقدمات کا اندراج اس تعصب اور جانبداری کا کھلا ثبوت ہے۔

ایسے پولیس افسران پر مشتمل جے آئی ٹی کی تحقیقات کا حصہ کیسے بن سکتے ہیں جس نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء اور زخمیوں کے ورثاء کی درخواست پر مقدمہ درج کرنے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ پولیس نے الٹا عوامی تحریک کے رہنماؤں پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ درج کر ڈالا، صرف مقدمہ ہی درج نہیں کیا بلکہ دہشت گردی کی عدالت میں جھوٹا چالان پیش کر کے عوامی تحریک کے رہنماؤں کی کردار کشی کی اور منفی میڈیا مہم چلوائی ۔

(جاری ہے)

خط میں کہا گیا ہے کہ پنجاب حکومت آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمائندوں پر مشتمل جے آئی ٹی سے خوفزدہ کیوں ہے؟ خط میں کہا گیا ہے کہ پنجاب حکومت نے آئی ایس آئی کے نمائندے پر مشتمل جو پہلی جے آئی ٹی بنائی تھی اس میں بھی قتل و غارت گری کا اشارہ پنجاب حکومت کی طرف ہوا تھا اور اس رپورٹ میں لکھا گیا تھا کہ ماہر نشانہ بازوں نے عوامی تحریک اور تحریک منہاج القرآن کے کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ کی۔

خط میں لکھا گیا ہے کہ اگر حکومتی جے آئی ٹی کی نیت صاف ہوتی تو وہ جیلوں، حوالاتوں میں بند عوامی تحریک کے کارکنوں سے رابطہ کر کے ان کے بیانات ریکارڈ کرتی جبکہ ایسا کرنے سے انہیں کسی نے نہیں روکا تھا۔ خط میں لکھا گیا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قتل کے مقدمہ نمبر 696 کے نامزد ملزم انسپکٹر اشتیاق کو لاہور ہی کے ایک تھانہ میں ایس ایچ او تعینات کر دیا گیا یہ تعیناتی آئی جی پنجاب کے اپنے احکامات کے برعکس ہے اگر جے آئی ٹی غیر جانبدار ہوتی تو اس تقرری کا ضرور نوٹس لیتی۔

خط میں لکھا گیا ہے کہ پولیس افسران 17 جون 2014 جائے وقوعہ پر باآواز بلند اہلکاروں کو ہدایات دیتے رہے کہ فائرنگ کا حکم وزیراعظم، وزیراعلیٰ اور وزیر قانون رانا ثناء اللہ کی طرف سے ہے لہٰذا کسی ڈر اور خوف کے بغیر کارروائی جاری رکھیں۔ خط میں لکھا گیا ہے کہ پاکستان عوامی تحریک صرف اس جے آئی ٹی کے سامنے بیان ریکارڈ کروائے گی جس میں پنجاب پولیس کا کوئی نمائندہ شامل نہیں ہو گا اور اس میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمائندے شریک ہونگے۔

مذکورہ خط وکلاء کی مشاورت کے بعد سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مقدمات کے مدعی جواد حامد نے 5 مارچ کو آئی جی پنجاب کے نام ارسال کیا۔ جواد حامد نے کہا کہ پہلی جے آئی ٹی کی رپورٹ اور جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کو شائع کرنے سے انکار کر کے پنجاب حکومت اپنا جرم قبول کر چکی ہے۔