سپریم کورٹ آف پاکستان سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات بارے فیصلہ آج کرے گی،الیکشن کمیشن نے تیسری مرتبہ پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات بارے ترمیم شدہ نیا شیڈول جمع کرادیا،کسی کے لحاظ کی کوئی گنجائش نہیں،عدالت کیساتھ مذاق کی اجازت نہیں دیں گے،کرکٹ کا میدان ہو یا انتخابات بھارت سے نہیں جیت سکتے، لگتا ہے کہ حکومتیں انتخابات سے بھاگ رہی ہیں۔انتخابات ضرور اور ہماری دی گئی تاریخوں پر ہونگے،جسٹس جواد ایس خواجہ کے ریمارکس

جمعہ 6 مارچ 2015 09:10

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔6 مارچ۔2015ء) سپریم کورٹ آف پاکستان سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات بارے فیصلہ آج جمعہ کو کرے گی۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اٹارنی جنرل اور صوبائی حکومتوں کی معاونت سے سندھ اور پنجاب کے بلدیاتی انتخابات کا ترمیم شدہ شیڈول جسٹس جواد ایس خواجہ کے چیمبر میں جمع کروادیا ہے۔کے پی کے اور کنٹونمنٹ بورڈز میں بلدیاتی انتخابات کا شیڈول عدالت نے منظور کیا تھا جبکہ سندھ اور پنجاب میں نیا ترمیم شدہ شیڈول مسترد کرتے ہوئے دوبارہ شیڈول جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن نے آئین کو نافذ نہیں کرنا تو بتادے۔ یہاں کسی کے لحاظ کی کوئی گنجائش نہیں۔ عدالت کیساتھ مذاق کیا جارہا ہے اس کی اجازت نہیں دیں گے۔

(جاری ہے)

ہمیں ایسے آدمی کی ضرورت نہیں کہ جسے کچھ علم ہی نہیں۔ اگر سیکرٹری الیکشن کمیشن نہیں ہوگا تو کیا الیکشن کمیشن کو تالا لگادیں گے۔ الیکشن حکام کو پیش کریں وہ بتائیں کہ پہلے وہ انتخابات کرانے پر رضامند نہیں تھے اب انتخابات کی عجیب شکل بنائی جارہی ہے۔

کرکٹ کا میدان ہو یا انتخابات‘ پتہ نہیں کیوں ہم بھارت سے نہیں جیت سکتے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومتیں انتخابات سے بھاگ رہی ہیں۔ اب تاریخ ہم دیں گے اور ہماری دی گئی تاریخوں پر انتخابات کرانا ہوں گے۔انہوں نے یہ ریمارکس جمعرات کے روز دئیے جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے جمعرات کو وزیراعظم نواز شریف کیخلاف توہین عدالت کی درخواست اور صوبوں میں بلدیاتی انتخابات بارے بلوچستان ہائیکورٹ بار کی درخواست کی سماعت کی اس دوران الیکشن کمیشن صوبائی حکومتوں کی معاونت سے اٹارنی جنرل سلمان بٹ نے نیا انتخابی شیڈول عدالت میں پیش کیا جس میں بتایا گیا تھا کہ پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات تین مراحل میں ہوں گے‘ پہلا مرحلے میں 30 ستمبر‘ دوسرا 4 نومبر اور تیسرا مرحلہ 9 دسمبر 2015ء کو مکمل ہوگا۔

کے پی کے میں 7 جون جبکہ چھاؤنیوں میں بلدیاتی انتخابات 25 اپریل کو کرائے جائیں گے۔ عدالت نے یہ شیڈول سن کر مسترد کردیا اور کہا کہ سندھ اور پنجاب میں تین مراحل میں انتخابات کرانے کا کیا مقصد ہے اور ایسا کرکے کس پر احسان کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس پر الیکشن کمیشن کے پیش ہونے والے افسر نے بتایا کہ انہیں تو صرف اتنا کہا گیا تھا کہ وہ جائیں اور جاکر پیش ہوجائیں اور بس انہیں اور کچھ نہیں کرنا مزید انہیں اس حوالے سے کچھ علم نہیں ہے اس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر اسے علم نہیں ہے کہ تو وہ یہاں کیا لینے آئے ہیں۔

جسٹس جواد نے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن نے آئین کو نافذ نہیں کرنا تو بتادے۔ یہاں کسی کے لحاظ کی کوئی گنجائش نہیں۔ عدالت کیساتھ مذاق کیا جارہا ہے اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہمیں ایسے آدمی کی ضرورت نہیں کہ جسے کچھ علم ہی نہیں۔ اگر سیکرٹری الیکشن کمیشن نہیں ہوگا تو کیا الیکشن کمیشن کو تالا لگادیں گے۔ الیکشن حکام کو پیش کریں وہ بتائیں کہ پہلے وہ انتخابات کرانے پر رضامند نہیں تھے اب انتخابات کی عجیب شکل بنائی جارہی ہے۔

گذشتہ رات میں اسلئے سماعت کی عوام کو ان کے اختیارات کی منتقلی بارے فیصلہ کیا جاسکے۔ ہم نے الیکشن نہیں لڑنا‘ چاہتے ہیں کہ عوام کو ان کا حق مل سکے۔ 17 سال گزرگئے کنٹونمنٹ بورڈز میں کوئی انتخابات نہیں ہوسکے۔ صوبوں میں بھی پانچ سال کا عرصہ گزرگیا جو شہری مجھے خطوط بھیج رہے ہیں ان سے بارہاء یہ کہہ چکا ہوں کہ وہ خدارا! اس غلط فہمی سے نکل آئیں کہ وہ کسی بھی قسم کے شہری ہیں۔

وہ شہری ہوتے تو آج ان کے حقوق اس طرح غصب ہوتے۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو ملک کے آئین کے ہوتے ہوئے کسی اور قانون کی ضرورت نہیں اسے چاہئے کہ وہ فوری طور پر بلدیاتی انتخابات کرادے۔ بلدیاتی انتخابات نہ ہونے کی وجہ سے عوام الناس پریشانی کا شکار ہیں۔ عدالت نے آدھے گھنٹے کیلئے عدالت موقوف کی تو اس کے باوجود بھی الیکشن کمیشن کا کوئی جواب نہ آیا اور الیکشن کمیشن حکام پیش نہ ہوئے اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ الیکشن کمیشن حکام کیوں پیش نہیں ہوئے۔

انتخابات کا نیا شیڈول عوام کیساتھ مذاق ہے۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ جن لوگوں کو کچھ پتہ ہی نہیں ہوتا انہیں عدالت کیوں بھیجا جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو بھرتی کون کرتا ہے۔ کیا یہ لوگ قواعد و ضوابط کے تحت آتے ہیں؟ جسٹس جواد نے کہا کہ عوام کو آئین و قانون حقوق دے رہے ہیں‘ حکومت اور الیکشن کمیشن یہ حقوق دینے کو تیار نہیں کیا اسی کا نام جمہوریت ہے۔

عدالت نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ وہ الیکشن کمیشن حکام کو بلائیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری نہیں کررہا۔ یہ چٹھی بازی کو ہم نہیں مانتے۔ الیکشن کمیشن آزاد ادارہ ہے‘ بتایا جائے کہ آئین کے مطابق ہر سال انتخابی فہرستیں اپ ڈیٹ کیوں نہیں کی جاتیں۔ دوسری دفعہ وقفے کے بعد الیکشن کمیشن کے نمائندے عرفان عدالت میں پیش ہوئے اس پر جسٹس جواد نے انہیں کہا کہ الیکشن کمیشن کا اپنا پرنٹنگ کارپوریشن کیوں نہیں ہے اور الیکشن کمیشن کا مواد پرنٹنگ کارپوریشن سے چھپوانا کیوں ضروری ہے اس پر الیکشن کمیشن کے نمائندے نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب میں 27 کروڑ اور سندھ میں 12 کروڑ بیلٹ پیپر چھاپے جائیں گے۔

پنجاب میں ضلع وائز جبکہ سندھ میں ڈویژن سطح پر انتخابات ہوں گے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا نیا شیڈول ہمیں قابل قبول نہیں۔ انتخابات ہوں گے اور ضرور ہوں گے اور ہماری دی گئی تاریخوں پر ہی ہوں گے۔ کسی کو تکلیف ہوتی ہے تو ہوتی رہے۔ جو تاریخ دیں گے اس پر انتخابات کرانا ہوں گے۔ 48 پرنٹنگ پریس ایسے ہیں کہ جہاں 100 کروڑ بیلٹ پیپر چھاپے جاسکتے ہیں۔

جسٹس سرمد نے کہا کہ بھارت میں الیکشن کمیشن آزاد اور خودمختار ہے۔ انتخابات ہوں تو سارا بھارت بند کردیا جاتا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ انتخابات تو کرانا ہی پڑیں گے اور ہم طاقت کے سرچشمے عوام کو خشک نہیں ہونے دیں گے۔ الیکشن کمیشن آزاد ہے اسے کسی کے تابع نہ سمجھیں۔ کرکٹ کا میدان ہو یا انتخابات‘ پتہ نہیں کیوں ہم بھارت سے نہیں جیت سکتے۔

ایسا لگتا ہے کہ حکومتیں انتخابات سے بھاگ رہی ہیں۔ اب تاریخ ہم دیں گے اور ہماری دی گئی تاریخوں پر انتخابات کرانا ہوں گے۔ بھارت میں 51 لاکھ بلدیاتی حلقے ہیں یہاں 51 ہزار ہیں پھر بھی انتخابات نہیں ہورہے۔ اگر 6 لاکھ اخبارات روزانہ چھپ سکتے ہیں تو بیلٹ پیپر کیوں نہیں چھپ سکتے۔ اس دوران عدالت نے تیسری بار وقفہ کیا اور کہا ہے کہ اب ہم حکم جاری کریں گے ۔