عوم الناس کے تحفظ پر سمجھوتہ نہیں کرسکتے،سپریم کورٹ، سندھ حکو مت کو ملک میں سستا مال ہونے کے باوجود باہر سے مہنگی گا ڑ یا ں خر یدنے کی اجازت نہیں دیں گے ،جسٹس سرمد جلال عثمانی ‘ یہ کیسا ٹھیکہ ہے رات کو خیال آیا اور صبح اٹھ کر ایک ارب 23 کروڑ روپے کا معاہدہ کردیا،پولیس کے انجینئرز بھلا کتنے ہی قابل کیوں نہ ہوں پاک فوج کے ہم پلہ نہیں ہوسکتے‘ یہ قومی سطح کا معاملہ ہے اس کا حل چاہتے ہیں‘جسٹس جواد ایس خواجہ کے ریمارکس،سربیا کی دو نمبر اور پرانی گاڑیاں کی خریداری پر اٹارنی جنرل پاکستان کو بھی نوٹس جاری

جمعرات 5 مارچ 2015 08:58

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔5 مارچ۔2015ء) سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کی جانب سے سربیا سے پولیس کی مدد کیلئے خریدی گئی گاڑیوں کے معاہدے کیخلاف محمود اختر نقوی کی درخواست کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ سندھ حکومت نے کمال کیا ہے کہ پاک فوج کے قابل بھروسہ اسلحہ ساز مقامی فیکٹریوں سے سستے داموں ملنے والی گاڑیاں خریدنے کی بجائے سربیا کی دو نمبر اور پرانی گاڑیاں ایک ارب 23 کروڑ روپے میں خرید ڈالیں تاکہ عوام الناس کا تحفظ کیا جاسکے‘ اٹارنی جنرل پاکستان کو نوٹس جاری کیا جاتا ہے کہ وہ آئندہ ہفتے اس معاملے پر آئین و قانون کے مطابق عدالت کی معاونت کریں‘ تین رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دئیے کہ سندھ حکومت بہت ہی پارسا اور وعدے کی پابند ہے کہ جس نے کبھی بھی پہلے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کی اسلئے یہ معاہدہ نہیں توڑ سکتی کیونکہ ان سے اعتماد کو ٹھیس پہنچنے کا خطرہ ہے‘ یہ کیسا ٹھیکہ ہے رات کو خیال آیا اور صبح اٹھ کر ایک ارب 23 کروڑ روپے کا معاہدہ کردیا‘ قواعد و ضوابط کا خیال رکھا گیا اور نہ ہی خریداری کا کوئی اشتہار دیا گیا جبکہ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے ریمارکس دئیے کہ عوم الناس کے تحفظ پر سمجھوتہ نہیں کرسکتے مگر ملک میں سستا مال ہونے کے باوجود باہر سے زیادہ قیمت پر خریداری کی اجازت نہیں دے سکتے‘ یہ عوام کا پیسہ ہے‘ فوج اور پولیس کے معیار میں فرق ہے‘ پولیس کے انجینئرز بھلا کتنے ہی قابل کیوں نہ ہوں پاک فوج کے ہم پلہ نہیں ہوسکتے‘ یہ قومی سطح کا معاملہ ہے اس کا حل چاہتے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس بدھ کے روز دئیے۔ سماعت شروع ہوئی تو سندھ حکومت کی جانب سے فاروق ایچ نائیک جبکہ سندھ پولیس کی جانب سے عرفان قادر پیش ہوئے۔ سندھ حکومت کی جانب سے اسلحہ خریداری کیس میں عرفان قادر اور فاروق ایچ نائیک پیش ہوئے۔ عرفان قادر نے کہا کہ معاملات مکمل ہوچکے ہیں آج ہم نے دلائل دینا تھے۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ ایچ ایم سی والے آئے تھے ہم نے کہا تھا کہ آپ اسلحہ چیک کرلیں کہ یہ معیاری نوعیت کا ہے۔

اے پی سی کا منگوایا اسلحہ صحیح ہے اور اس کی قیمتیں بھی صحیح ہیں۔ ہیوی مکینیکل کمپلیکس کے قاسم اعجاز نے اس کا جائزہ لیا ہے اور تقابل بارے رپورٹ جمع کروادی ہے۔ اسلحہ سربیا سے خریدا گیا تھا۔ سندھ پولیس نے معاہدے کی کاپی دیکھی تھی جس میں لائٹ قسم کی گاڑیاں خریدی گئی تھیں۔ ہمارے مقصد کی گاڑیاں ابھی پاکستان نہیں آسکی ہیں۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ تمامتر گاڑیوں کے خدوخال اور پرزے عالمی معیار سے ملتے جلتے ہیں اور سربیا نے جو گارنٹی یا وارنٹی دی ہے اس کی کیا صورتحال ہے۔

ممکن ہے کہ جن قواعد و ضوابط کے تحت یہ اسلحہ خریدا گیا ہو وہ آپ سے میچ نہ کرتے ہوں۔ جسٹس سرمد نے کہا کہ ایچ ایم سی (اے پی سی) کے محافظ ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ یہ سربین گاڑیاں ہیں کیا یہ واقعی ہیں؟ ایچ ایم سی کے افسر نے بتایا کہ لیاری میں سربیا کے بنائے گئے اسلحہ کو استعمال کیا گیا تھا۔ ہم نے کہا تھا کہ اس سے بہتر اسلحہ ان کو دے سکتے ہیں مگر سندھ حکومت نے اس کی مخالفت کی تھی اور خریدنے سے انکار کردیا تھا۔

جسٹس جواد نے کہا کہ کیا ان کا اسلحہ خریداری کا کوئی اشتہار آیا ہے؟ قاسم نے بتایا کہ ساڑھے 17 کروڑ روپے کی ایک گاڑی ہے۔ اس قسم کی گاڑی کی ہم 5 کروڑ روپے کی پیشکش کرچکے ہیں۔ ہماری گاڑی پروٹیکٹر کے نام سے ہے۔ انہوں نے بغیر اشتہار کے ٹھیکہ دیا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ 50 کروڑ روپے کا یہ ٹھیکہ کیسے دے دیا ہے۔ ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا کے افسر نے بتایا کہ انہوں نے کبھی بھی ہم سے رابطہ نہیں کیا۔

جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ یہ درست ہے کہ شہریوں کی زندگیوں پر سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا لیکن اس طرح مہنگا اسلحہ بھی تو نہیں خریدا جاسکتا۔ عرفان قادر نے کہا کہ ہم ان کو بتانے کے پابند نہیں ہیں اگر یہ خریداری شفاف نہیں ہے تو ہم جواب دینے کو تیار ہیں۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ اگر یہ کوالٹی آپ کو پاکستان سے مل سکتی تھی تو آپ نے باہر سے کیوں منگوائی۔

عرفان قادر نے بتایا کہ ان کی کوالٹی پاکستان سے بہتر ہے اسلئے باہر سے اسلحہ منگوایا۔ ا سپر عدالت نے کہا کہ آپ ڈیل کو واضح کریں کہ یہ شفاف ہے؟ جس پر سندھ پولیس کے وکیل عرفان قادر نے اپنا جواب پڑھا کہ دونوں کے اسلحے میں تقابل پیش کردیتا ہوں۔ تصاویر بھی نوٹ کرلیں۔ پاکستانی اسلحہ کسی قسم کی پوزیشن کا ادراک نہیں کرسکتا جبکہ بیرونی اسلحہ سے ایسا ممکن ہے۔

قاسم نے بتایا کہ اسلحہ دو طرح کا ہے۔ ایک یورپی طرز کا اور دوسرا نیٹو طرز کا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آپ ہمیں سادہ لفظوں میں بتائیں۔ دو طرح کے سٹینڈرڈز کے درمیان بی 7 لیول اور 20 لیول میں سے کونسا معیار زیادہ تحفظ کا ضامن ہے۔ عرفان قادر نے کہا کہ آپ پہلے سوال سے بتائیں تاکہ ہمیں جواب میں آسانی ہو۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ اسلحہ جب آپ کو اپنے ملک کا سستا مل سکتا ہے تو باہر سے کیوں خریدتے ہیں اس کا جواب دیں۔

کیا یہ اسلحہ پاکستان آرمی استعمال کررہی ہے۔ اگر ہماری فوج اپنے بنائے گئے ٹینک استعمال کررہی ہے تو لیاری والے اگر توپیں لگاکر بیٹھے ہیں تو آپ ان سے ٹینک لے کر استعمال کیوں نہیں کرتے۔ ہم دہشت گردی میں اپنے جوانوں کا تحفظ چاہتے ہیں آپ پر سخت قسم کے اعتراضات ہیں۔ بی 7 تیار کررہے ہیں ان سے کیوں نہیں خریدتے۔ عرفان قادر نے کہا کہ ہم نے مزید اسلحہ خریدنا ہے ان سے بھی خریدیں گے اب ہم معاہدہ کرچکے ہیں اس کی پابندی چاہتے ہیں۔

عرفان قادر نے کہا کہ آپ کو تفصیلی معاملات میں جانا پڑے گا۔ بہت سی چیزیں ان کے پاس بھی نہیں ہیں۔ جسٹس سرمد نے کہا کہ 5 کروڑ اور 17 کروڑ روپے بہت فرق ہے۔ جسٹس جواد نے کہ سوال ایک ہے؟ سوال یہ ہے کہ سندھ حکومت نے سربیا سے کوئی اسلحہ خریدنا ہے‘ وہ نیا ہے یا پرانا‘ اس کی دیواروں میں فرق ہوسکتا ہی۔ سربیا سے یہ ایک اے پی سی آگئی ہے۔ اگر وہ کراچی میں کہیں کھڑی ہے تو دیکھا جاسکتا ہے اگر وہ ابھی سربیا میں کھڑی ہے تو اس کا جائزہ کیسے لیا جائے گا۔

دونوں کا اسلحہ دیکھ کر ہی اس کا تقابلی جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ فوج کے کسی آرمڈ کور کا آفیسر دونوں طرح کی گاڑیوں کا جائزہ لے کر اس حوالے سے بتا سکتا ہے کہ بہتر کونسی گاڑی ہے اور کس گاڑی سے زیادہ تحفظ ہے۔ عرفان قادر نے کہا کہ درخواست گزار محمود تقوی نے اپنی درخواست میں مقدمہ نیب کو ارسال کرنے کی استدعاء کررکھی ہے۔ جسٹس سرمد نے کہاکہ یہ قومی سطح کا معاملہ ہے آپ کو اس کے حل کی طرف جانا چاہئے۔

آپ کہتے ہیں تو نیب کو نہیں بھیجتے۔ اس معاملے میں دو سال کا عرصہ پہلے ہی گزر چکا ہے۔ آپ معاہدہ دکھاکر ہمیں تسلی کرائیں کہ آپ نے صحیح معاہدہ کیا ہے۔ جسٹس سرمد نے کہا کہ آپ نے پیسے دے دئیے ہیں اس پر فاروق ایچ نائیک نے سندھ حکومت کی جانب سے بتایا کہ ابھی پیسے ادا نہیں کئے۔ ہمیں سربین کمپنی نے گاڑی دی ہے۔ یہ یوگو کمپنی ہے جو معاہدے کراتی ہے اور گارنٹی دیتی ہے۔

جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ آپ دوسروں کے فنانشنل معاملات سے پریشان کیوں ہیں؟ بیرونی طور پر آپ کو کیا مسئلہ درپیش ہے اس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ یہ ایک دوسرے پر اعتماد کا معاملہ ہوتا ہے۔ اگر ہم نے یہ گاڑیاں نہ خریدیں تو پھر ہم سے کوئی معاہدہ نہیں کرے گا۔ ہم اس معاہدے پر عملدرآمد کے پابند ہیں۔ اگر نہیں کریں گے تو ہمیں اس کے جواب میں کچھ نہ کچھ دینا پڑ جائے گا۔

جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ آپ کا تو جنیوا سے تعلق رہا ہے اور اب بھی ہے۔ کیا یہ کمپنی بھی وہیں کی ہے۔ اس پر نائیک نے کہا کہ جنیوا خوبصورت شہر ہے اور بیوروکریٹس کا شہر ہے۔ 9.55 ملین یورو اس اسلحے کی قیمت بنتی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ روپے میں یہ کتنی رقم بنے گی۔ جسٹس سرمد نے کہا کہ اگر آپ ان کو اس پر کچھ پینلٹی دے دیں تب بھی بات بن جائے گی۔

کیا سندھ پولیس کا افسر سربیا گیا تھا اور گاڑیوں کا جائزہ لیا تھا؟ تنویر احمد نامی افسر کے دستخط ہیں کیا وہ گئے تھے؟ اس پر فاروق نائیک نے کہا کہ جی ہاں! وہ گئے تھے۔ وزارت قانون سندھ سے بھی مشورہ لیا تھا۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ 1 ارب 23 کروڑ روپے میں گاڑیاں خریدی گئیں جبکہ یہاں اس کی قیمت 30 کروڑ روپے بنتی ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آپ اسلئے خریدنا چاہتے ہیں۔

آپ نیک اور پارساء ہیں‘ اپنے وعدے سے منحرف نہیں ہوسکتے۔ سندھ حکومت نے پہلے بھی کبھی کوئی وعدہ نہیں توڑا اور یہ پہلی بار ہوگا کہ آپ معاہدہ توڑیں گے۔ آپ ک ساکھ خراب ہونے کا خدشہ ہے کہ وہ آئندہ آپ کو ٹھیکہ نہیں دے گا۔ نائیک نے کہا کہ ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا جو گاڑیاں بنارہی ہے ان میں کافی فرق ہے۔ ٹرائیگون یہ بنارہے ہیں اور لیزر ہم منگوارہے ہیں۔

ٹویوٹا اور سوزوکی کا فرق ہے‘ ان کی صلاحیتوں میں بھی فرق ہے۔ جسٹس سرمد نے کہا کہ آپ کو اس طرح کا اسلحہ خریدنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کو تحفظ چاہئے۔ عرفان قادر نے کہا کہ ان کی گاڑی کی وجہ سے 17 بندے مرگئے تھے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم نے سربیا کا دو نمبر استعمال شدہ مال ضرور خریدنا ہے۔ محمود تقوی نے کہاکہ گاڑیوں کو زنگ لگا ہوا ہے یہ خود بھی دیکھ چکے ہیں۔

جسٹس جواد نے کہا کہ کشکول لے کر ہم ساری دنیا میں پھر رہے ہیں۔ نیٹو سے اسلحہ کیوں نہیں خرید لیتے؟ عرفان قادری نے کہا کہ جس نے گاڑیوں کو دیکھا تھا اس ماہر کی بات سن لیں۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ آپ فوج سے تو پوچھ لیں کہ کیا گاڑیاں خریدنی چاہئیں‘ بتایا جائے کہ ان ہاؤس اس کی کتنی صلاحیت موجود ہے۔ پولیس کے پاس کس حد تک تجربہ کار افسران اور انجینئر موجود ہیں؟ عرفان قادر نے کہا کہ کیا ہر چیز کو فوج نے چلانا ہے اس پر جسٹس سرمد نے کہا کہ آپ کی اپنی فوج ہے۔

اس میں ہمارے لوگوں کا پیسہ ملوث ہے۔ ہم اس طرح کیسے اجازت دے سکتے ہیں۔ فوج اور پولیس کے معیار میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جن کا کام ہے ان سے آپ بات نہیں کرتے۔ دوست محمد کی بات ہم نہیں سن سکتے۔ الزم تراشی نہ کیجئے اس کا حل ڈھونڈئیے۔ عدالت نے محمود تقوی کو بات کرنے سے روک دیا۔ عدالت نے وفاقی حکومت کو اس معاملے میں معاونت کرنے کی ہدایت کردی۔

جسٹس جواد نے کہا کہ کس قسم کا ٹھیکہ ہے۔ پیپرا رولز تک نہیں دیکھے گئے۔ رات کو سوئے صبح اٹھے اور 1 ارب 23 کروڑ روپے کا ٹھیکہ دے دیا۔ جسٹس سرمد نے کہا کہ اٹارنی جنرل سے بات کریں اور معاہدے کا جائزہ لیں کہ معاہدہ صحیح ہے یا نہیں۔ سندھ حکومت نے کہا کہ ہم اٹارنی جنرل کیساتھ بیٹھنے کو تیار ہیں۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ سندھ پولیس نے جو گاڑیاں خریدی ہیں اس حوالے سے اٹارنی جنرل پاکستان ہماری معاونت کریں تاکہ سربین کمپنی سے گاڑیوں کی خریداری کے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا جاسکے اور ایک ہفتے میں جواب دیا جائے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردئیے ہیں اور سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کردی۔

متعلقہ عنوان :