قیدیوں نے گلگت جیل کے عملے کی برین واشنگ کر دی تھی‘تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف

جمعرات 5 مارچ 2015 08:55

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔5 مارچ۔2015ء ) شمالی علاقے گلگت بلتستان کی جیل سے دو قیدیوں کے فرار کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان قیدیوں نے جیل کے اہلکاروں کی’برین واشنگ‘ کی اور ان کی مدد سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔قیدیوں کے فرار کا واقعہ گذشتہ جمعرات کو پیش آیا جب نانگا پربت کیس کے چار ملزمان نے ضلعی جیل سے بھاگنے کی کوشش کی تھی۔

اس کوشش کے دوران ایک قیدی ہلاک اور ایک زخمی حالت میں پکڑا گیا تھا جبکہ دو قیدی فرار ہونے میں کامیاب رہے تھے۔اس سلسلے میں حکام نے جیل کے تین ہیڈ واڈنز، پانچ وارڈنز کے علاوہ ایف سی اور پولیس کے ایک ایک اہلکاروں اور ڈسپنسری کے انچارج کو حراست میں لیا ہے۔فرار کے واقعے کی تحقیقاتی ٹیم میں شامل ایک اہلکار نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ 2013 میں نانگا پربت بیس پر دس غیر ملکیوں کو قتل کرنے کے مقدمے میں گرفتار ہونے والے دس ملزمان کو ضلعی جیل کی تین مختلف بیرکوں میں رکھا گیا تھا۔

(جاری ہے)

اہلکار کے مطابق کے مطابق اب تک ہونے والی تحقیقات میں یہ سامنے آیا ہے کہ ان ملزمان کی بیرکوں کے باہر تعینات جیل اہلکاروں کے ساتھ ملزمان نے نہ صرف اپنے تعلقات بڑھائے بلکہ اْنھیں ان وجوہات کے بارے میں بتایا جن کو بنیاد بناتے ہوئے اْنھوں نے ایسے افراد اور اداروں کے خلاف لڑائی کرنے کا فیصلہ کیا جو اْن کے نظریات کی مخالفت کرتے ہیں۔گلگت کی ڈسٹرکٹ جیل سے ملزمان کے فرار کے بعد گرفتار ہونے والے دس افراد میں جیل کے تین ہیڈ واڈن، پانچ وارڈن، ایک ایف سی اور ایک پولیس اہلکار کے علاوہ ڈسپنسری کا انچارج بھی شامل ہے اہلکار کے مطابق اب تک کی تحقیقات میں اس بات کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ ملزمان کے ساتھیوں نے جیل کے اہلکاروں کے ساتھ جیل کے باہر بھی راوبط رکھے ہیں اور مبینہ طور پر اْن کی ’ضروریات‘ کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔

اہلکار کے مطابق حراست میں لیے جانے والے جیل کے اہلکار گذشتہ تین ماہ کے دوران مسلسل اْنھی بیرکوں میں تعینات تھے جہاں فرار ہونے والے قیدیوں کو رکھا گیا تھا۔ تاہم تفتیش کے دوران جیل کے حکام کا موقف تھا کہ اْنھوں نے اپنی بساط کے مطابق سیکیورٹی اقدامات کیے تھے۔اب تک کی جانے والی تفتیش میں جیل حکام کا یہ موقف بھی سامنے آیا ہے کہ اس امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ فرار ہونے والے ملزمان نے اس بیرک کی ایک اضافی چابی بنوائی ہو جس کے بارے میں تحقیقاتی ٹیم کا کہنا ہے کہ اگر اس بیرک کی دوسری چابی بنوائی گئی ہے تو اس میں بھی جیل کے اہلکاروں کا ہاتھ ضرور ہوگا۔

فرار کے بعد سرچ آپریشن میں قیدی پولیس کا حصار توڑنے میں کامیاب رہے ادھر حبیب اللہ اور لیاقت علی نامی مفرور قیدیوں کی تلاش کے لیے پولیس اور ایف سی کا سرچ آپریشن جاری ہے تاہم ابھی تک کوئی کامیابی نہیں مل سکی۔دس غیر ملکیوں کے قتل کے مقدمے میں پولیس نے اب تک دس ملزمان کو گرفتار کیا ہے جبکہ دو ملزمان اس مقدمے میں اشتہاری قرار دیے گئے ہیں۔

اس واقعے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان نے قبول کی تھی۔متعلقہ علاقے کے سب ڈویڑنل پولیس افسر حفیظ الرحمن نے بتایا کہ گرفتار ہونے والے افراد کے خلاف مقدمہ انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج کیا گیا ہے اور متعلقہ عدالت سے اْن کا جسمانی ریمانڈ لے کر تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔ضابطے کے مطابق جیل کسی بھی اہلکار کو تین دن سے زیادہ کسی ایک بیرک کی ڈیوٹی نہیں سونپی جاتی تاہم نانگا پربت حملے میں ملوث قیدیوں کی بیرک کے باہر وہی اہلکار تین ماہ سے ڈیوٹی دے رہے تھے۔

پولیس کے مطابق اس کے علاوہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب گلگت اور اس کے قریبی علاقوں میں سرچ آپریشن کے دوران چار افراد کو حراست میں بھی لیا گیا ہے جن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اْنھوں نے اس وقوعہ سے قبل تین مرتبہ ملزمان سے جیل میں ملاقات کی تھی۔یاد رہے کہ چاروں صوبوں کے محکمہ جیل خانہ جات کے حکام نے سرکلر جاری کیا تھا جس کے مطابق کسی بھی وارڈن کو کسی بھی بیرک کے باہر ہفتے میں تین دن سے زیادہ تعینات نہیں کیا جائے گا۔23 جون سنہ 2013 کو ضلع دیامر کے صدر مقام چلاس کے قریب نانگا پربت کے بیس کیمپ میں موجود دس غیر ملکی اور ایک پاکستانی سیاح کو گلگت سکاوٴٹس کی وردیوں میں ملبوس تقریباً 12 مسلح حملہ آوروں نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا،

متعلقہ عنوان :