سپریم کورٹ نے بلدیاتی انتخابات کرانے کے لیے حتمی تاریخ بارے تین مارچ کو جواب طلب، عدالتی احکامات پر عمل نہ کرنے والوں کیخلاف کارروائی بارے اٹارنی جنرل سے قانونی معاونت طلب،عدالت کا بلدیاتی انتخابات نہ کرانے پروزیر اعظم نواز شریف کیخلاف نوٹس جاری کرنے سے انکار،معاملہ حساس نوعیت کا ہے اور احتیاط کا متقاضی ہے اگر ضرورت پڑی تو وزیراعظم کو نوٹس جاری کرنے سے گریز نہیں کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ

ہفتہ 28 فروری 2015 09:36

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 28فروری۔2015ء) سپریم کورٹ نے سندھ ، پنجاب ، اسلام آباد ، کنٹونمنٹ بورڈز سے بلدیاتی انتخابات کرانے کے لیے حتمی تاریخ بارے تین مارچ کو جواب طلب کیا ہے ۔ جبکہ اٹارنی جنرل پاکستان سلمان بٹ سے عدالتی احکامات پر عمل نہ کرنے والوں کیخلاف کارروائی بارے آئینی و قانونی معاونت طلب کی ہے ، عدالت نے ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات نہ کرانے پر چیف ایگزیکٹو پاکستان میاں محمد نواز شریف کیخلاف توہین عدالت کی درخواست پر نوٹس جاری کرنے سے انکار کردیا ہے اور کہا ہے کہ معاملہ حساس نوعیت کا ہے اور احتیاط کا متقاضی ہے اس لئے ابھی نوٹس جاری نہیں کررہے ہیں تاہم اگر ضرورت پڑی تو وزیراعظم کو نوٹس جاری کرنے سے گریز نہیں کیا جائے گا ۔

یہ حکم جمعہ کے روز جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے جاری کیا ہے جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ وفاق سمیت صوبوں نے بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے تو آئین کو اٹھا کر کوڑے دان میں پھینک دیں سب پڑھے لکھے ہیں جانتے ہیں کہ آئین پر عمل نہ کرنے کے کیا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ؟ قانون ساز قابل احترام ہیں ان کا کام قانون بنانا ہے اس پر عمل کرنا نہیں ہے ۔

(جاری ہے)

عوام کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے پارلیمنٹ ، چیف ایگزیکٹو سمیت کوئی بھی ادارہ یا فرد الیکشن کمیشن کو اس قانون کے مطابق فرض کی ادائیگی سے نہیں روک سکتے الیکشن کمیشن اختیارات کے باوجود اپنا فرض ادا کرنے سے ہچکچہا رہا ہے قانون میں نقائص تو اگلے دس سال بھی دور نہیں ہوں گے تو کیا ہم اتنی بات روک دیں وفاق سمیت حکومتوں نے حلف دیا تھا کہ قانون سازی دس روز میں کرلی جائے گی حلف کی پاسداری نہ کرنے والوں کیخلاف کارروائی کرینگے جبکہ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ الیکشن کمیشن بتائے آئین کے مطابق ذمہ داری ادا کرنے سے کون روک رہا ہے ؟ وفاق اور صوبے کس طرح سے الیکشن کمیشن کو الیکشن کرانے سے روک سکتے ہیں ۔

انہوں نے یہ ریمارکس گزشتہ روز دیئے ہیں ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ عدالتی حکم پر عمل نہ کرنے پر کیا کارروائی کی جائے اکرم شیخ آپ اس حوالے سے معاونت کریں سارے کا سارا قانون کی خلاف ورزی نظر آرہی ہے ذمہ دار کون ہے ہمارے پاس کچھ اختیارات ہیں جن کے تحت ان کیخلاف کارروائی کی جاسکے ۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ 220 کے تحت الیکشن کمیشن کے پاس اختیارات ہیں آپ کے پاس اپن اختیارات ہیں ۔

اکرم شیخ نے آرٹیکل 220پڑھ کر سنایا ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اگر آئین کے تحت ہم بااختیار ہیں تو ٹھیک وگرنہ ہم گھر چلے جاتے ہیں ۔ ایک سال تک چیف الیکشن کمشنر ہی نہیں تھے کوئی تو ہمیں سمجھائے کہ یہ قوم ملک کے ساتھ ہوکیا رہا ہے ؟ آپ ہی بتا دیں کہ آئین کیا کہتا ہے ؟ الیکشن کرانا نہیں ہے تو آئین کو کوڑے دان میں پھینک دیں ۔ لوگوں کو انتخابات کے ذریعے اختیارات دینے کی بات آئین کہتا ہے صوبے ہیں کہ یہ سب کرانا نہیں چاہتے ۔

جسٹس سرمد نے کہا کہ حکومت کہہ دے کہ الیکشن کرانے ہیں یا نہیں کرانے اس میں تاخیر کا کون ذمہ دار ہے ؟ اکرم شیخ نے کہا کہ الیکشن کمشنر کی تقرر بھی سپریم کورٹ کے بار بار کہنے پر ہوئی ہے ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آپ سب پڑھے لکھے ہیں آئین کی خلاف ورزی کے کیا نتائج ہوسکتے ہیں بتادیں کہ آئین کے تحت الیکشن کرانا ضروری نہیں ہے ۔ انہوں نے اکرم شیخ کو مختلف آئینی آرٹیکل پڑھنے کو کہا جنہوں نے آرٹیکل 117،118 سمیت کئی دیگر آرٹیکلز پڑھ کر سنائے ۔

یہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابات کرائے اوراس میں شفافیت ہو ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آئین آپ الیکشن کمیشن پر بھاری ذمہ داری کررہا ہے ، اکرم شیخ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تمام تر آئینی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ یہ اٹھارہویں ترمیم کے ثمرات ہیں جو پانچ سال میں کسی کو بھی نہیں ملے ایک اہم ادارہ جس کو اختیارات بھی حاصل ہیں ایک سال کے لئے اس لئے غیر فعال تھا کہ چیف الیکشن کمشنر ہی نہیں تھا ۔

آپ قابل احترام قانون ساز ہیں آپ کا کام تو صرف قانون بنانا ہے اس پر عمل کرنا نہیں اکرم شیخ نے کہا کہ عام انتخابات سینٹ انتخابات اور بلدیات انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے ان ذمہ داریوں کی بجا آوری کے لیے تمام تر انتظامی ادارے ایلکشن کمیشن کی معاونت کرنے کے لیے آئین اور قانونی طو پر پابند ہیں ۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ ڈی لمیٹیشن قانون کے مطابق کی گئی ہیں یا نہیں ۔

اکرم شیخ نے کہا کہ اب یہ ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آئین کو پڑھ لینا چاہیے اب آپ کے ذریعے پڑھا ہے تو آپ بتائیں ذمہ داروں کیخلاف کیا کارروائی ہوسکتی ہے ۔14 اکتوبر 2014ء کو آرڈیننس پاکستان کیا گیا اس کی عمر 120دن تھی وہ تو ختم ہوگئی ۔ اکرم شیخ نے کہا کہ اس میں چار ماہ کے لیے توسیع کردی گئی ہے ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ یہ آرڈیننس اس وقت تک آرڈیننس رہتا ہے جب تک اسمبلی کا اجلاس نہیں ہوتا اجلاس ہوجائے تو اس میں اس آرڈیننس کی منظوری کے لیے پیش کرنا پڑتا ہے ۔

کہا جارہا ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس اختیار نہیں ہے اگر اختیار ہے تو وہ اپنا اختیار کیوں استعمال نہیں کررہا وہ حد بندیاں کرا کے اور الیکشن کی تاریخ دے اس ملک کے لوگ اس وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں لوگ نمائندوں کو کہتے ہیں کہ الیکشن ہوگا تو تمہیں دیکھ لیں گے کہ کیسے اقتدار میں آتے ہو اگر الیکشن ہی نہ ہوگا تو ان کا احتساب کون کرے گا ۔ پیمانہ صبر لبریز ہوچکا ہے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہوچکا ہے ۔

جسٹس سرمد نے کہا کہ یہ حکومتی ذمہ داری ہے کہ وہ الیکشن کرائے کیا یہ حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے الیکشن کمیشن نے بھی کچھ کرنا ہے اگر وہ اپنی ذمہ داری ادا نہیں کررہا تو اس کا مطلب ہے کہ کوئی اسے فرض کی ادائیگی سے روک رہا ہے ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آرٹیکل 219 کے تحت الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے ۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ انتخابات کے انعقاد کو پارلیمنٹ بھی نہیں روک سکتا یہ تو الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ الیکشن کرائے ۔

ہمارا فرض ہے کہ ہم آئین و قانون کے محافظ ہونے کے ناطے اس کو نافذ کرائیں کوئی ہمیں اس سے روکنے کی کوشش کررہا ہے ایسا کیوں ہورہا ہے ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آئین نے عوام کی مرضی کو نافذ کرنا ہے اور انتخابات اس کی مرضی ہے ۔ہماری انگریزی صحیح نہیں ہے آئندہ ترجمہ کرکے الیکشن کمیشن کو بتائیں گے تاکہ یہ ان کا فرض کے وہ انتخابات کراےء آپ جو سمجھ رہے ہیں وہ سمجھ ناقص لگ رہی ہے آپ 219 ڈی سے روگردانی نہیں کرسکتے ملک پولیس کوئی بھی ادارہ آپ کو الیکشن کرانے سے نہیں روک سکتا پانچ سال ہوگئے آپ کے پاس اختیارات ہونے کے باوجود آپ کو کس نے اس ذمہ داری کی بجا آوری میں روکا ہے کمرے کے باہر آپ جا کر اعلان کرسکتے ہیں کہ یہ شیڈول ہے اس کے تحت الیکشن کرائے جائینگے اگر کوئی آپ کے حکم کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیتا یہ تو آپ ہمارے پاس آئیں اگلا فرض ہم ادا کرینگے عذر کا فیصلہ کرینگے آپ کی ذمہ داری کو درست قرار دینگے ۔

جسٹس سرمد جلال نے کہا کہ کہ جو آئین آپ کے آڑے آتا ہے اس بارے ہمیں بتائں ی اکرم شیخ نے کہا کہ میرے راستے میں رکاوٹیں آرہی ہیں آپ ہٹانے میں ہماری مدد کریں ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آئین کہتا ہے کہ الیکشن کمیشن کے کوئی آڑے نہیں آسکتا آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ کوئی آڑے آرہا ہے آپ بتا دیں کہ الیکشن ہوگا اگر کسی کو اعتراض ہوگا تو وہ ہمارے پاس آئے گا آئین آپ کوخود مختار قرار دیتا ہے جو اعتراض کرے گا اس سے ہم پوچھیں گے کہ پانچ سال وہ کیا کرتے رہے ہیں کیا ان کا فرض نہیں تھا ۔

میں آپ سے استدعا کررہا ہوں کہ آئین پر عمل کریں الیکشن کمیشن کو بااختیار کرنے والی شقوں پر عمل کریں آپ کے آڑے کوئی نہیں آئیگا اگر کوئی آڑے آئیگا تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ عوام الناس نے اس فرض کی ادائیگی کی ذمہ داری الیکشن کمیشن پر ڈالی گئی ہے ۔ اکرم شیخ نے کا کہ اٹارنی جنرل تو ہماری معاونت کررہے ہیں ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ پھر آڑے کون آرہا ہے عدالت نے کہا کہ آپ اپنی درخواست پڑھ کر سنائیں کہ کون سی مشکلات ہیں کہ جس کی وجہ سے آپ انتخابات کرانے سے معذور ہیں اور کون آپ کے آڑے آرہا ہے ۔

جسٹس جواد نے کہا کہ آج یہ طے ہوتا ہے کہ انتخابات کب ہونا ہیں کون تاریخ نہیں دینگے جس پر اکرم شیخ نے اپنی درخواست پڑھ کر سنائی ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ سندھ حکومت آپ کی مدد کیوں نہیں کررہی ہے آپ کے ہاتھ کیوں بندھے ہوئے ہیں یہ مینڈیٹ تو آپ کو آئین نے دیا ہے ابھی تک سندھ اسمبلی کے پاس کردہ بل منظور ہی نہیں کیا گیا بتایا گیا کہ دستخط ہوگئے ہیں ۔

جسٹس جواد نے کہا کہ یہ تمام تر مشکلات عارضی ہیں آپ چیف ایگزیکٹو صوبہ اور گورنر تک ذمہ داری کی ادائیگی سے نہیں روک سکتے آپ شیڈول جاری کریں آپ کو کوئی نہیں روک سکتا ۔ اکرم شیخ نے کہا کہ قانون کے مطابق ہی یہ اختیار استعمال ہوگا ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہمت آپ نہیں کررہے اور کہتے ہیں کہ صوبے رکاوٹیں ڈال رہے ہیں الیکشن کمیشن کو آئین میں دیئے گئے اختیارات بارے سبق ہم نے پڑھانے ہیں کسی شخص کو اگر الیکشن کمیشن کے حکم سے تکلیف ہے تو وہ ہمیں بتائے ۔

جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ جو چیز بھی الیکشن کمیشن آج کررہا ہے اس کا فیصلہ 2014ء میں سپریم کورٹ کرچکی ہے جسٹس جواد نے کہا کہ الیکشن کمشن کو عدالت آنے کی ضرورت نہیں جس کو تکلیف ہے وہی آئے گا ۔ اکرم شیخ نے 2014ء کا فیصلہ پڑھ کر سنایا ۔ جسٹس سرمد نے کہا کہ آئین آپ کو پہلے اختیارات دے چکا ہے آپ کو ہمیں حکم دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اکرم شیخ نے کہا کہ یہ ایک بار پھر مجھے حکم دے ہم انتخابات کرادینگے ۔

جسٹس سرمد جلال نے کہا کہ تمام تر معاملات اب آپ کے پاس ہیں ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اگر کوئی قانون بناتا ہے تو اور بات ہے اس کو بھی دیکھ لیں گے قانون میں تو نقص ہے اور یہ نقائص اگلے سال رہیں گے کیا آپ انتخابات اس وقت تک نہیں کرائینگے جب تک قانونی سقم دور نہیں ہوجاتے ۔ جسٹس سرمد نے کہا کہ پنجاب اور سندھ کو ایک سال قبل احکامات جاری کئے گئے تھے ۔

جسٹس جواد نے کہا کہ درخواست گزار راجہ رب نواز نے 2009ء سے درخواست دے رکھی ہے الیکشن کمیشن بااختیار ہے اگر کوئی سمجھتا ہے کہ آپ بااختیار نہیں ہیں تو وہ عدالت میں آسکتے ہیں انہوں نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ 2009ء سے رب نواز کی درخواست پڑھی ہوئی رب نواز ن کہا کہ توہین عدالت کی درخواست دے رکھی ہے ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ بلوچستان نے انتخابات کرادیئے ہیں کے پی کے بھی تاریخ دے رہاہے باقی سندھ اور پنجاب رہ جاتے ہیں وہ بتائیں کہ کیا کررہے ہیں پنجاب ، سندھ اور وفاق تیاری کرکے آئیں اور بتائیں کہ انہوں نے قانون سازی نہیں کرنی ایک حکمناے میں وفاق نے حلف دے رکھا ہے کہ دس روز میں قانون سازی ہوگی وہ تو ہم حلف دے کر پاسداری نہ کرنے والوں کیخلاف کارروائی کرینگے وہ اپنی جگہ ہے کسی بھی آ زاد خود مختار ادارے کو انتخابات سے کیسے روکا جاسکتا ہے ۔

جسٹس سرمد نے کہا کہ صوبے الیکشن کمشن کو کس طرح سے اپنی ڈیوٹی کے ادا کرنے سے روک سکتے ہیں ۔ رب نواز نے کہا ک آپ میری درخواست پر نوٹس کردیں اس پر عدالت نے کہا کہ یہ نوٹس ہم سوچ سمجھ کر کرینگے پہلے بھی سیکرٹریز دفاع آصف یاسین ملک کو نوٹس جاری کیا تھا ڈی اے جی نے بتایا تھا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر عرصہ بڑھا دیا تھا جس کی وجہ سے ان کیخلاف کارروائی نہیں کی گئی کیا یہ کوئی نئی درخواست ہے رب نواز نے بتایا کہ اکتوبر 2014ء میں انہوں نے توہین عدالت کی درخواست دی تھی عدالت نے کہا کہ ہم منگل تک سماعت ملتوی کررہے ہیں صوبے اور وفاق جواب دیں کہ وہ انتخابات کب کرائینگے عدالت نے حکم نامہ میں کہا کہ ہم نے الیکشن کمیشن کو تفصیل سنائی ہے یہ سماعت جاری رکھنا تھی کہ اہم اجلاس کی وجہ سے اس کی سماعت ملتوی کرنا پڑھ رہی ہے درخواست گزار سے ہم نے متعلقہ آئین پرویزٹنز پڑھنے کو کہا کہ جس کے تحت الیکشن کمیشن بااختیار بنایا گیا ہے اور اس کو کام سونپے گئے ہیں اپریل 2010ء میں بھی یہ معاملہ اٹھایا تھا آرٹیکل 219،220 اور دیگر آرٹیکلز الیکشن کمیشن کی مدد کرتے ہیں انتظامی ادارے انتخابات کرانے میں الیکشن کمیشن کی معاونت کرنے کے لئے آئین و قانونی طور پر پابند ہیں ۔

حد بندیوں کا اختیار بھی الیکشن کمیشن کو دیا گیا ہے اور یہ سب آئین کے مطابق کرنے کو کہا گیا ہے آئینی نکات کو دیکھتے ہوئے واضح ہوتا ہے کہ انتخابات کرانا آرٹیکل 219ڈی کے تحت الیکشن کمیشن کی اپنی ذمہ داری ہے اگر یہاں تک کہ صوبے اور انتظامی ادارے اس طرح کا فرض ادا کرنے میں ناکام ہوجائیں تب بھی وہ الیکشن کمیشن کو اس کے ذمہ داری ادا کرنے سے نہیں روک سکتے ۔

گزشتہ روز جاری کردہ حکم کے مطابق بھی ہم کہہ چکے ہیں کہ لوگوں کو بااختیار بنانے کے لیے بلدیاتی انتخابات کرانا ضروری ہیں پانچ سال کا عرصہ گزر چکا ہے کہ شہریوں کوان کے حقوق سے محروم رکھا گیا ہے جو آئین کہ آرٹیکل 140 اے کے تحت انہیں دیئے گئے ہیں آئین نے آرٹیکل 219 ڈی کے تحت بااختیار بنایا گیا ہے یہاں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے سے ہچکچہا رہا ہے اور آئین کی روگردانی کررہا ہے صوبوں کو قانون سازی کا اختیار حاصل ہے تاہم اگر وہ کوئی قانون سازی کرتے بھی ہیں تو وہ قانون کے مطابق انہیں کمیشن کودیئے گئے اختیارات کو ختم نہیں کرسکتے اور نہ ہی الیکشن کو روک سکتے ہیں 26 فروری کے عدالتی حکم پر عمل کیا جائے راجہ رب نواز نے توہین عدالت کی درخواست دائر کی ہے جس کے تحت وزیراعظم میاں محمد نواز شریف چیف ایگزیکٹو فیڈریشن کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کی استدعا کی گئی ہے وہ کہتے ہیں کہ نوٹس جاری کئے جائیں کیونکہ انہوں نے عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی ہے اس پر عملدرآمد نہیں کیا ہے ابھی ہم ان کو نوٹس کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تاہم اٹارنی جنرل سے کہتے ہیں کہ وہ قانون کے مطابق ہماری معاونت کریں کہ ہم کس طرح سے اس حوالے سے اقدام کرسکتے ہیں اگر کوئی ہمارے حکم کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو جسٹس جواد نے کہا کہ یہ انتہائی اقدام ہے اگر کرنا پڑا تو ضرور کرینگے اور اس سے گریز نہیں کرینگے اس لئے ابھی نوٹس جاری نہیں کررہے ہیں عدالت نے سماعت تین مارچ منگل کے روز تک ملتوی کردی ۔