سینیٹ الیکشن،ڈنکے کی چوٹ پر ووٹوں کی خرید و فروخت کا انکشاف ، بلوچستان اور فاٹا کے اراکین قومی و صوبائی کو مبینہ طور پر کروڑوں روپے کی رشوت پیش پیپلز پارٹی نے پتے درست کھیلے تو قائد ایوان اور چیئر مین شپ کے عہدے پھرمل سکتے ہیں، تجزیہ نگار

ہفتہ 21 فروری 2015 09:16

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 21فروری۔2015ء ) سینیٹ الیکشن کے لیے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کا مرحلہ مکمل ،تحزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سینیٹ میں نئی جماعتوں کے امیدوراوں کی آمد بھی متوقع ہے، تحریک انصاف پہلی بار نمائندگی حاصل کرے گی جبکہ دوسری جانب روایت کے مطابق الیکشن میں ووٹوں کی خرید وفروخت کا سلسلہ ڈنکے کی چوٹ پر جاری ہے، بلوچستان قبائلی علاقوں سے اراکین صوبائی اور قومی اسمبلی کو مبینہ طور پر کروڑوں روپے کی رشوت پیش کا انکشاف کی گیا ہے، غیر ملکی میڈیا میں تجزیہ نگاروں کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مارچ میں ہونے والے سینیٹ انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) اپنی پوزیشن مستحکم تو کرے گی لیکن اس کی نشستیں پی پی پی پی کی نشستوں کے برابر رہنے کا امکان ہے۔

(جاری ہے)

اس بات کے بھی امکانات ہیں کہ اگر پی پی پی کی قیادت نے اپنے سیاسی کارڈ ذہانت سے استعمال کیے تو سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے اہم عہدے بھی اسی کے پاس رہیں گے، سینیٹ میں نئی جماعتوں کے امیدوراوں کی آمد بھی متوقع ہے اور ان میں سرفہرست عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف بھی شامل ہے جو سینیٹ میں پہلی بار نمائندگی حاصل کر کے تاریخ رقم کرے گی۔

رپورٹ کے مطابق ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی سینیٹ الیکشن میں بااثر اور مالدار شخصیات کی جانب سے نشستوں کے لیے صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کے ووٹ خریدے جانے سے متعلق خبریں بھی گردش کر رہی ہیں۔ اس ضمن میں صوبہ بلوچستان اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں سے اراکین صوبائی اور قومی اسمبلی کو مبینہ طور پر کروڑوں روپے کی رشوت پیش کی جا رہی ہے۔

بلوچستان کی پیچیدہ اور کثیرالجہتی سیاست کی وجہ سے وہاں صوبائی ارکان اسمبلی کی وفاداریاں خریدے جانے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اسی سبب وہاں پر سیاسی جماعتوں کے بجائے پیسہ اور اثر و رسوخ استعمال کرنے والے آزاد امیدوار بھی کامیاب ہوتے رہے ہیں۔اسی طرح پاکستان کے قبائلی علاقوں سے چار سینیٹرز کے انتخاب کے لیے فاٹا کے بارہ اراکین قومی اسمبلی کے ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے، جن سے متعلق ہر بار یہ کہا جاتا ہے کہ یہ ووٹ سب سے زیادہ رقم کی پیشکش کرنے والے امیدوار کے حصے میں آتے ہیں۔

فاٹا کی نشستوں پر بھاوٴ تاوٴ کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ قبائلی علاقہ جات سے چار نشستوں کے لیے 43 افراد نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ ایک سینئر صحافی اور تجزیہ نگار نے کا کہنا ہے کہ انتخابات قریب آتے ہی خیبر پختوانخوا اور فاٹا میں ’منتخب اراکین کی منڈی‘ لگ جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیب مصلحتوں کے سہارے چلنے والے میڈیا اور الیکشن کمیشن کے سینیٹ کے انتخاب کے لیے غیر موزوں طریقہ انتخاب کی وجہ سے ہر مرتبہ ڈنکے کی چوٹ پر ووٹوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔

مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جس علاقے سے میں ہوں، وہاں یہ کام سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ سینیٹرز کے انتخاب کے طریقہ کار میں تبدیلی لاتے ہوئے اس کا انعقاد خفیہ کے بجائے کھلی رائے شماری سے کرائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب کھلے عام ووٹنگ ہو گی تو پھر اخلاقی دباوٴ کی وجہ سے اراکین اپنے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی نہیں کر پائیں گے اور یوں زیادہ شفافیت دیکھنے میں آئے گی۔