گلگت بلتستان کے نئے گورنر کی تقرری پر تنازعہ کھڑا ہو گیا ، پیشرو گورنرپیر کرم علی شاہ کا عہدے سے ہٹنے سے انکار، مستعفی نہیں ہوا اور نہ ہی وفاقی حکومت نے مجھے عہدے سے ہٹانے سے متعلق آگاہ نہیں کیا ‘ پیرکرم علی شاہ

بدھ 18 فروری 2015 08:55

گلگت( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 18فروری۔2015ء ) مسلم لیگ ن کے رہنماء چوہدری محمد برجیس طاہر کی بطور گورنر گلگت بلتستان تقرری اورعہدے کا حلف اٹھائے جانے کے بعد خطے میں سیاسی طوفان کھڑا ہوگیا ہے، تاہم ان کے پیشرو گورنر نے ہٹنے سے انکار کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اب بھی ' آئینی ' طور پر اس پوزیشن پر فائز ہیں۔پیر کرم علی شاہ نے کہا ہے " میں اب تک مستعفی نہیں ہوا اور نہ ہی وفاقی حکومت نے مجھے عہدے سے ہٹانے سے متعلق آگاہ کیا ہے، کسی گورنر کو ہٹائے بغیر اس عہدے پر نئی تقرری غیر آئینی اور غیراخلاقی ہے"۔

وفاقی وزیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان کی جانب سے گورنر کے عہدے کا حلف اٹھائے جانے کے کچھ دیر بعد ہی پورے خطے اور اسلام آباد میں چوہدری برجیس طاہر کو ہٹانے کے لیے احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے۔

(جاری ہے)

مظاہروں کے باعث ہی حلف برادری کی تقریب کی جگہ بدلنا پڑی۔ذرائع کے مطابق وزارت کو آگاہ کیا گیا تھا کہ مسلم لیگ نواز کی مخالف جماعتوں نے گلگت بلتستان ہاؤس میں حلف برادری کی تقریب کے موقع پر مظاہروں کی منصوبہ بندی کررکھی ہے۔

بعد ازاں حلف برادری کی تقریب سخت سیکیورٹی میں وزارت کے ایک چھوٹے سے کمرے میں ہوئی۔اس کمرے میں جگہ نہ ہونے کے باعث انتظامیہ اور صحافیوں کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا اور میڈیا نے ایونٹ کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔تاہم نو منتخب گورنر نے صحافیوں سے معذرت کی اور انہیں بائیکاٹ ختم کرنے کے لیے راضی کرلیا۔سابق گورنر کی شعلہ بیانی : پیر کرم علی شاہ نے اسلام آباد پر گلگت بلتستان حکومت کو جی بی امپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر 2009 کے تحت اختیار کو چھینے کی سازش کا الزام عائد کیا۔

انہوں نے کہا کہ میں اپنا مقدمہ عوامی عدالت میں لے جاؤں گا کیونکہ وفاقی حکومت پاکستان میں شامل ہونے کے لیے گلگت بلتستان کے عوام کی قربانیوں کو فراموش کرنے کی کوشش کررہی ہے، 1947 میں گلگت بلتستان کے حکمرانوں کے پاس روس اور چین جیسے ممالک کا حصہ بن جانے کا آپشن موجود تھا"۔کراچی سے گلگت واپس پہنچنے پر پیر کرم علی شاہ کا کہنا تھا " ہمارے آباؤ اجداد نے پاکستان کا ساتھ صرف اسلامی اقدار کی وجہ سے دیا مگر اب کسی غلطی کے بغیر ہی ہماری تذلیل کی جارہی ہے"۔

پیپلزپارٹی کے ورکرز نے گلگت، اسکردو اور دیگر علاقوں میں وفاق کے اس اقدام کے خلاف احتجاج کیا۔مظاہرین نے وفاقی حکومت کے خلاف بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا " ہمارے اوپر خطے سے باہر کا ایک فرد تھوپا جارہا ہے"۔مظاہرین نے وفاقی حکومت کو انتباہ کیا کہ اگر اس نے عوامی خواہشات کا احترام نہ کیا تو یہ خطہ بھی ' ایک اور بلوچستان' بن سکتا ہے۔

پیپلزپارٹی گلگت بلتستان کے عہدیدار حسین علی رانا نے کہا " ہم غیر مقامی اور مسلم لیگ نواز کے حامی گورنر کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گے"۔انہوں نے مزید کہا کہ گلگت بلتستان کونسل کے انتخابات " موجودہ حالات میں آزاد و منصفانہ" نہیں ہوسکتے۔برجیس طاہر کا حلف : وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان کی جانب سے جاری ایک بیان کے مطابق وفاقی وزیر چوہدری محمد برجیس طاہر نے گلگت بلتستان کے چوتھے گورنر کی حیثیت سے حلف اٹھالیا ہے۔

سپریم اپیلیٹ کورٹ کے قائم مقام چیف جج جسٹس راجا جلال الدین نے نومنتخب گورنر سے حلف لیا۔نگران وزیراعلیٰ شیر جہاں میر، گلگت بلتستان اسمبلی کے اسپیکر وزیر آغا اور چیف سیکرٹری سلطان سکندر راجا سمیت دیگر افراد نے حلف برادری کی تقریب میں شرکت کی۔دوسری جانب پیپلزپارٹی نے سینیٹ سیکرٹریٹ میں ایک تحریک جمع کراکے وفاقی وزیر کی بطور متنازع گورنر گلگت بلتستان تقرری پر بحث کا مطالبہ کیا ہے۔

تحریک جمع کرانے والے سینیٹر فرحت اللہ خان بابر نے برجیس طاہر کی تقرری کو " گلگت بلتستان امپاورمنٹ آرڈر کی خلاف ورزی ، اچانک اور پراسرار قرار دیا"۔انہوں نے کہا کہ صدر مملکت نے اس تقرری کا نوٹیفکیشن " عوامی تعطیل" (ہفتہ چودہ فروری) کو جاری کیامیڈیاکو دستیاب تحریک کی نقل میں کہا گیا ہے " گلگت بلتستان سے تعلق نہ رکھنے والے شخص کی بطور گورنر تقرری سے خطے کی خودمختاری پر بڑا حملہ کیا گیا ہے اور خطے کے بیس لاکھ سے زائد مرد و خواتین پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے"۔

تحریک میں مزید کہا گیا ہے " خطے کی خودمختاری پر یہ حملہ اور عوام کی برملا توہین گلگت بلتستان کے سیاسی اور سماجی استحکام کے لیے بڑا خطرہ ثابت ہوسکتا ہے اور اس معاملے پر معمول کی کارروائی معطل کرتے ہوئے فوری بحث کا مطالبہ کیا گیا ہے"۔بعد ازاں میڈیا سے بات کرتے ہوئے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ گلگت بلتستان کے عوام میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ گزشتہ چھ دہائیوں کے دوران انہیں دھوکا دیا گیا ہے۔

انہوں نے وفاقی حکومت کو فوجی عدالتوں کو گلگت بلتستان تک توسیع دینے کے معاملے پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا " حکومت نے گلگت بلتستان کونسل کو ایک طرف کردیا ہے کیونکہ وہ جانتی ہے کہ یہ ادارہ فوجی عدالتوں کے قیام کی مخالفت کرے گا"۔انہوں نے حکومت کے اس موقف کو مسترد کردیا کہ اس معاملے کو کونسل میں بھیجنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ دفاع سے متعلق امور ہے " اگر 21 ویں ترمیم کو گلگت بلتستان تک توسیع دی جاسکتی ہے تو پھر 18 ویں ترمیم کے فوائد کو اس خطے تک کیوں توسیع نہیں دی جاتی اور اسے مشترکہ مفادات کونسل کی رکنیت دینے اور این ایف سی ایوارڈ میں حصہ کیوں نہیں دیا جاتا"۔

انہوں نے مزید کہا کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق پہلے ہی گلگت بلتستان میں اصلاحات کی رپورٹ پر کام کررہی ہے۔فرحت اللہ بابر کے مطابق خطے کی تین رکنی کابینہ کی بارہ اراکین تک توسیع اور ایک وفاقی وزیر کی بطور گورنر تقرری نے جلد ہونے والے انتخابات کی شفافیت پر سنجیدہ سوالات اٹھا دیئے ہیں۔پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے بھی وفاقی حکومت پر شبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان انتخابات میں دھاندلی کا اسٹیج بنا دیا گیا ہے۔

پی ٹی آئی کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ گورنر، چیف الیکشن کمیشن کی تقرری اور نگران کابینہ میں توسیع پولنگ س یپہلے کی دھاندلی ہے۔پی ٹی آئی پہلے ہی گلگت بلتستان میں چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرچکی ہے۔خیال رہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت کے دور میں خطے کے لیے امپاورمنٹ آرڈر کے تحت 33 نشستوں پر مشتمل گلگت بلتستان کونسل کا قیام عمل میں آیا تھا۔

متعلقہ عنوان :