پاکستان کسان بورڈ کا اپنے مطالبات کے حق میں لانگ مارچ کا اعلان،ملک کی 70فیصد آبادی پریشانیوں میں پھنس چکی، حکومتی سطع پر خاموشی باعث تشویش ہے ، وقت آگیا ہے کہ کسانوں کے حقوق کے لیے سڑکوں پر نکلا جائے، صدر کسان بورڈ ،تمام اہم زرعی اجناس کی امدادی قیمت مقرر کی جائے،حکومت کسانوں کو فلیٹ ریٹس پر بجلی ،کسانوں کو بلا سود قرضے مہیا کیے جائیں،صادق خاکوانی

منگل 17 فروری 2015 08:16

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 17فروری۔2015ء ) پاکستان کسان بورڈ نے کسانوں کے بڑھتے ہوئے مسائل اور مشکلات میں اضافے پر حکومتی خاموشی اور موثر اقدامات نہ اٹھانے خلاف لانگ مارچ کرنے کا اعلان کر تے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت بھارت کی طرح تمام اہم زرعی اجناس کی امدادی قیمت مقرر کر ے، ملک کی 70فیصد آبادی پریشانیوں میں پھنس چکی، زراعی شبعہ اور زراعت سے منسلک کاروبار مسلسل غیر منافع بخش ہوتے جارہے ہیں، وقت آگیا ہے کہ کسانوں اور کاشتکاروں کو حقوق دلانے کے لیے سڑکوں پر نکلا جائے۔

کسان بورڈ پاکستان کے مرکزی صدر صادق خان خاکوانی نے ایک انٹرویو میں کہا کہ بڑھتے ہوئے زرعی مسائل کی وجہ سے دیہات میں بسنے والی ملک کی 70 فیصد آبادی شدید مشکلات کا شکار ہے اور ان مسائل کی وجہ سے پاکستانی زراعت تیزی سے غیر منفعت بخش کاروبار بنتی جا رہی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ملک کے مختلف علاقوں میں کسان کنونشن منعقد کیے جارہے ہیں اور کسانوں کے حقو ق کے لیے یکم اکتوبر کو صادق آباد سے اسلام آباد کی طرف احتجاجی لانگ مارچ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس لانگ مارچ میں تمام کسان تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کے کسان ونگز سے وابستہ ہزاروں کاشتکار شریک ہوں گے۔ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں زرعی فصلوں کی پیداواری لاگت بہت بڑھ چکی ہے جبکہ مارکیٹ میں ان فصلوں کی قیمتیں کمی کا شکار ہیں۔ ”اس لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت بھارت کی طرح پاکستان میں بھی تمام اہم زرعی اجناس کی امدادی قیمت مقرر کرے۔

ہم چاہتے ہیں کہ حکومت کاشتکار تنظیموں کے مشورے سے فصلوں کی کاروباری لاگت طے کرے اور اس میں 20 فیصد منافع اور پانچ فیصد انشورنس چارجز شامل کر کے فصلوں کی امدادی قیمت مقرر کی جائے۔ حکومت کسانوں کو فلیٹ ریٹس پر بجلی مہیا کرے۔ اس کے علاوہ کسانوں کو بینک دولت پاکستان کی ہدایات کے مطابق بلا سود قرضے مہیا کیے جائیں اور کھاد اور بیجوں سمیت تمام زرعی inputs (مداخلات) پر جنرل سیلز ٹیکس بھی ختم کیا جائے۔

ایگری فورم پاکستان کے سربراہ ابراہیم مغل نے انٹرویو میں بتایا کہ فصلوں کی پیداواری لاگت کے باعث چھوٹے کاشتکاروں کے لیے کھادوں کا مناسب مقدار میں استعمال ممکن نہیں رہا۔ اس لیے پاکستان میں فی ایکڑ پیداوار بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ ان کے بقول ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں حکومت کی عدم توجہ کی وجہ سے کاشتکاروں کی ضروریات کے مطابق زرعی تحقیق بھی نہیں ہو رہی۔

”مارکیٹ کا حال یہ ہے کہ زرعی اجناس پیداواری لاگت پر نہیں بک رہیں، آلو آج کل پندرہ بیس روپے کلو بک رہا ہے۔ ابھی ذخیرہ اندوز اسے لے کر سٹور کر رہے ہیں۔ چند ماہ بعد یہ ساٹھ روپے کلو بک تو جائے گا لیکن کاشتکار کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ کاشتکاروں کے پاس سٹوریج کی سہولت نہ ہونے کے باعث 25 فیصد پھل اور 35 فیصد سبزیاں ضائع ہو جاتی ہیں۔ پاسکو، محکمہ خوراک اور ٹی سی پی والے بااثر زمینداروں کی خدمت میں لگے رہتے ہیں۔

عام کسان کا برا حال ہے۔ابراہیم مغل نے بتایا کہ پچھلے سال باسمتی چاول 2600 روپے فی من تک بھی بکا تھا لیکن اس مرتبہ اس کی قیمت 1300 روپے تک گر گئی ہے۔ اسی طرح دیگر اجناس کی قیمتیں بھی گر گئی ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ قیمت کی اس کمی کا کوئی فائدہ صارف کو نہیں پہنچ رہا۔گنے کی فصل کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ گنے کی فصل سیاسی ہو چکی ہے۔

پیپلز پارٹی کے آصف زرداری، مسلم لیگ نون کے نواز شریف اور تحریک انصاف کے جہانگیر ترین سمیت کئی اہم سیاست دانوں نے شوگر ملیں لگا رکھی ہیں۔ جب سے سیاست دان اس بزنس میں آئے ہیں، کسانوں کا بری طرح استحصال ہو رہا ہے۔ پچھلے کئی سالوں کی طرح اس سال بھی شوگر ملیں وقت پر نہیں چلائی گیئں۔ گنے کی قیمت 180 روپے کی بجائے 150 روپے بھی نہیں دی جا رہی۔

ملوں والے کہتے ہیں کہ نقد رقم لینی ہے تو سستے داموں فصل دو، ورنہ ادائیگی کے لیے چھ ماہ انتظار کرو۔ چک جھمرا کے علاقے میں تو ایک شوگر مل کے اہلکاروں کی طرف گنے کے وزن میں ہیر پھیر کرنے پر اعتراض کرنے والے ایک کاشتکار کو گولی مار کر ہلاک بھی کر دیا گیا تھا۔ چند روز قبل ننکانہ صاحب کے علاقے میں بھی پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے ایک قریبی عزیز کی ایک شوگر مل سے واجبات کی وصولی کے لیے کسانوں کی طرف سے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا۔

ان کے بقول گنے کی 200 ارب روپے کی موجودہ فصل میں سے 125 ارب روپے کی فصل خریدی جا چکی ہے لیکن اس میں سے اب تک کسانوں کو صرف 30 ارب روپے ادا کیے گئے ہیں۔پنجاب حکومت کے محکمہ زراعت کے ترجمان توصیف صبیح نے بتایا کہ حکومت کاشتکاروں کو بجلی کی مد میں 22 ارب روپے کی سبسڈی دے رہی ہے اور پچھلے سال کاشتکاروں کے لیے بجلی کا ریٹ کم کر کے 10.35 روپے مقرر کیا گیا تھا۔

ان کے بقول حکومت نے کھادوں کی مد میں بھی کاشتکاروں کو 14 ارب روپے کی سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا ہے لیکن کھاد بنانے والی کمپنیاں اس قیمت کو اپنے تیار کردہ کھاد کے تھیلوں پر چھاپنے سے انکاری ہیں (جو حکومت اس لیے چاہتی ہے کہ یہ سبسڈی متعلقہ مستحق کسانوں تک پہنچے)، اس وجہ سے یہ معاملہ قدرے تاخیر کا شکار ہو رہا ہے۔ایک کاشتکار محمد مختار نے کا کہنا ہے کہ جب تک تجارتی اور صنعتی طبقوں کے لوگ حکومت میں ہیں، اسے نہیں لگتا کہ کاشتکاروں کے مسائل کیحل کے سلسلے میں کوئی موٴثر پیش رفت ہو سکے گی۔

متعلقہ عنوان :