مارچ میں شمالی وزیرستان کے لوگوں کو گھروں کو بھیجنے کا اعلان، اب ”ڈو مور“کی باری عالمی برادری کی ہے تاہم دنیا مدد کرے یا نہ کرے ہم دہشت گردی کا خاتمہ کرکے دم لیں گے،ڈی جی آئی ایس پی آر،آرمی سکول پر حملے میں27دہشتگرد ملوث تھے، 9مارے جاچکے،12گرفتار کرلئے ،ملافضل اللہ نے حملے کا حکم دیا،اسے بھی گرفتار کیا یا مار دیا جائے گا،بھارت خطے میں خطرناک کھیل کھیل رہا ہے،دہشتگردوں کو کہیں جگہ نہیں ملے گی پاکستان اور افغانستان کے درمیان انٹیلی جنس باہمی تعاون میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے،دہشتگرد تنظیموں کی اتنی بڑی فنڈنگ بیرونی امداد کے بغیر ممکن نہیں،فاٹا اور بلوچستان میں دہشتگردوں کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے،ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ کی پریس کانفرنس، گرفتار دہشت گردوں کے اعتراف جرم کی ویڈیو اور ملا فضل اللہ کی ٹیلی فون پر آرمی پبلک سکول پر حملہ کے ہدایات پر مبنی ٹیلی فون گفتگو بھی سنائی

جمعہ 13 فروری 2015 09:10

راولپنڈی(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 13فروری۔2015ء)عسکری ترجمان نے مارچ میں شمالی وزیرستان کے لوگوں کو گھروں کو بھیجنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب ”ڈو مور“کی باری عالمی برادری کی ہے تاہم دنیا مدد کرے یا نہ کرے ہم دہشت گردی کا خاتمہ کرکے دم لیں گے،آرمی سکول پر حملے میں27دہشتگرد ملوث تھے، 9مارے جاچکے،12گرفتار کرلئے گئے ،ملافضل اللہ نے حملے کا حکم دیا،اسے بھی گرفتار کیا یا مار دیا جائے گا،بھارت خطے میں خطرناک کھیل کھیل رہا ہے،دہشتگردی کے خلاف پوری قوم متحد ہے،دہشتگردوں کو معاشرے میں کہیں جگہ نہیں ملے گی،پاکستان اور افغانستان کے درمیان انٹیلی جنس اطلاعات کا تبادلہ جاری ہے اور باہمی تعاون میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جس سے سرحد پر نظام مستحکم ہوا ہے،دہشتگرد تنظیموں کی اتنی بڑی فنڈنگ بیرونی امداد کے بغیر ممکن نہیں،فاٹا اور بلوچستان میں دہشتگردوں کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے جمعرات کو یہاں ایک پریس کانفرنس میں کیا۔اس موقع پر انہوں نے گرفتار دہشت گردوں کے اعتراف جرم کی ویڈیو اور ملا فضل اللہ کی ٹیلی فون پر آرمی پبلک سکول پر حملہ کے ہدایات پر مبنی ٹیلی فون گفتگو بھی سنائی۔میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کہا کہ آپریشن ضرب عضب کامیابی سے جاری ہے۔

انہوں نے ویڈیو دکھائی اور کلےئر علاقوں کے بارے میں بریفنگ دی اور کہا کہ شوال اور دتہ خیل سے کافی آگے تک علاقہ کلےئر ہوچکا ہے اور میڈیا کو دتہ خیل کا دورہ کرایا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ متاثرین کو مارچ میں واپس بھیجا جائے گا،آپریشن خیبرون میں بھی کافی علاقے کلےئر کردئیے گئے ہیں اور آپریشن کامیابی سے جاری ہے۔انہوں نے کہا کہ آپریشن میں176 اہم دہشتگرد مارے گئے،16دسمبر کے واقعے کے بعد1942آپریشن ہوئےٍ،226جوان شہید ہوئے اور813 زخمی بھی ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پشاور آرمی سکول سانحے میں ملوث گینگ کا پتہ چل گیاہے۔سکول پر حملے کا حکم مولانا فضل اللہ نے دیا اور یہ معلومات پکڑے گئے دہشتگردوں نے دیں۔انہوں نے کہا کہ واقعے کی منصوبہ بندی سرحدی علاقے میں ہوئی،ان میں کچھ لوگوں کا کام راستوں کی تلاشی تھا،دہشتگرد حملے سے قبل جمرود میں ایک گھر میں رہے پھر2پارٹیاں بن کر چلے،ایک پارٹی تہکال میں کرائے کے ایک گھر پر رہی اور دوسری پارٹی آرمی سکول کے پیچھے محکمہ انہار کے ملازم ایک امام مسجد کے پاسرہے،حملے کے دن صبح6افراد امام مسجد کے گھر اکٹھے ہوئے اور پھر سکول پر حملہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ حملے سے قبل فضل اللہ اور اورنگزیب اور عمر امیر کے درمیان مشاورت ہوئی،عمرامین نے آپریشن کی ذمہ داری سنبھالی اور آصف عرف حاجی کامران کو کمانڈر بنایا،جس نے فورس کو2گروپوں میں تقسیم کیا،ایک کا کمانڈر عتیق الرحمان کو لگایا جو ابھی پکڑا جاچکا ہے،عتیق الرحمان نے مولوی عبدالسلام کو ڈھونڈا جو پاکستانی حکومت سے تنخواہ لے رہا ہے اور جان بوجھ کر اس حملے کا حصہ بنا۔

ایک خودکش بمبار مولوی کے گھر سے آگے نہیں گیا جبکہ3نے سکول پر حملہ کیا اور پھر مارے گئے،دوسرے گروپ میں تاج عرف رضوان مصباح3بمبار اور 3ان کے مزید ساتھی صدام،خورشید اور جاپانی تھے،3خودکش بمبار اور ان کے دیگر3ساتھی مارے گئے۔کمانڈر حضرت علی نے ان لوگوں کو مدد دی، وہ ایف آر پشاور کا رہائشی ہے جس کے سر کی قیمت 25لاکھ روپے مقرر ہے۔حضرت علی نے فنڈز مہیا کئے اور دہشتگرد سبیل نے حملہ آوروں کو ٹرانسپورٹ کرکے مولوی عبدالسلام تک پہنچایا جو گرفتار ہوچکا ہے،اس کے علاوہ مجیب الرحمان عرف علی بھی گرفتار ہو چکا ہے جس نے دہشتگردو ں کو جمرود میں پناہ دی تھی۔

انہوں نے کہا کہ یہ کل27دہشتگردوں کا گروپ ہے جس میں سے12گرفتار ہوچکے ہیں،9مارے جاچکے اور باقی کی تلاش جاری ہے،اس کے علاوہ6دہشتگرد افغانستان میں پکڑے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پشاور حملے کے بعد آرمی چیف افغانستان گئے جہاں پر انہو ں نے افغان صدر اور حکام سے ملاقاتوں میں معلومات دیں جس پر دونوں ممالک کی ایجنسیوں نے ملکر کام کیا اور 6لوگ گرفتار ہوئے،ہم افغان حکومت کے شکرگزار ہیں اور ہمارا تعاون بڑھ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سے قبل سرحدوں پر بارڈر مینجمنٹ کے تعاون نہ ہونے کا دہشتگرد فائدہ اٹھاتے رہے لیکن جوں جوں نظام بہتر ہو رہا ہے لوگ پکڑے جارہے ہیں۔افغانستان سے مزید تعاون بڑھایا جائے گا۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ دہشتگردوں کے خلاف سیاستدان اور پوری قوم اکٹھے ہوچکے ہیں،سانحہ پشاور نے قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے اس سانحہ کے ہر مجرم کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں دشمن کی شناخت مشکل ہے،یہ ہمارے درمیان چھپے ہوئے ہیں،ہمیں دہشتگردی کے خاتمے کیلئے متحد ہونے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے لوگوں کو اطلاع دینے کی اپیل کی تھی اور لوگوں کا شکر گزار ہوں کہ اطلاعات آرہی ہیں۔تہکال میں گھر کے پڑوسیوں اور دیگر لوگوں نے اطلاع نہیں دی۔انہوں نے کہا کہ اگر متحد نہیں ہوں گے تو کچھ واقعات ہوسکتے ہیں،افغانستان سے ملافضل اللہ کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے،ملا فضل اللہ کی گرفتاری ہماری ترجیح ہے،یا پھر اسے مار دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں کام شروع ہوگیا ہے،ابتدائی طور پر9کورٹس بنائی گئیں اور 12مقدمات عدالتوں میں آگئے ہیں،جتنے بھی مقدمات ہیں سب پر کارروائی ہوگی اور ضرورت پڑنے پر عدالتوں کی تعداد بڑھائی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ دہشتگرد تنظیموں کی اتنی بڑی فنڈنگ بیرونی امداد کے بغیر ممکن نہیں،فاٹا اور بلوچستان میں دہشتگردوں کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان سے زیادہ انتہا پسندی بھارت میں ہورہی ہے،بھارت لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کر رہا ہے،ہم نے بھارت سے مسلسل احتجاج کیا،بھارت کو سمجھا دیاا ہے کہ وہ کنٹرول لائن پر خطرناک کھیل کھیل رہا ہے اور دہشتگردی کے خلاف جنگ سے پاکستان کی توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہاہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان دہشتگردی کے خاتمے کیلئے پرعزم ہے،اشتعال پھیلانے والوں کی معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہم نے کبھی دہشتگرد کو سزا دینے کی مخالفت نہیں کی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کسی بھی چینی باشندے کو دہشتگردی سے کوئی خطرہ نہیں،عالمی برادری دہشتگردی کے خاتمے کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔ایک سوال پر کہا کہ پشاور حملے میں زیادہ پاکستانی ملوث تھے،ڈرون حملوں کے حوالے سے کہا کہ ڈرون حملوں پر ہماری پالیسی واضح ہے،دفتر خارجہ نے بھی ڈرون حملوں پر احتجاج کیا اور پارلیمنٹ نے بھی ردعمل ظاہر کیا،جب ہم کارروائی کر رہے ہیں تو پھر ڈرون حملوں کی کیا ضرورت ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے سابق ڈی جی ائی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کے اسامہ بن لادن کے حوالہ سے بیان پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ 30سال پہلے ریٹائر ہوگئے تھے ان کے پاس کوئی انٹیلی جنس اطلاعات نہیں ہیں، یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اسامہ بن لادن کی موجودگی میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ تینوں مسلح افواج کے ترجمان ہیں جنرل اسد درانی نے معلوم نہیں کس حیثیت میں انٹرویو دیا۔