وکلاء کے دلائل مکمل، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ممتاز قادری کی اپیل پر فیصلہ محفوظ کرلیا، کسی مسلمان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ توہین رسالت کے قانون کو کالا قانون کہے،ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کے دلائل

جمعرات 12 فروری 2015 09:16

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 12فروری۔2015ء) اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر قتل کیس میں گرفتار ممتاز قادری کی جانب سے دائر کی گئی اپیل کی سماعت کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ خواجہ محمد شریف‘ جسٹس (ر) میاں نذیر اختر اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد میاں عبدالرؤف کے دلائل مکمل ہونے کے بعد ممتاز قادری کیس اپیل پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

بدھ کے روز اسلام آباد ہائیکورٹ میں ممتاز قادری کی طرف سے جسٹس (ر) میاں نذیر اختر پیش ہوئے جبکہ وفاق کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد میاں عبدالرؤف پیش ہوئے۔ جسٹس نورالحق این قریشی اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ درخواست گزار ممتاز قادری کے وکیل جسٹس (ر) میاں نذیر اختر نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے وہ بیانات جن میں انہوں نے توہین رسالت کے قانون کو کالا قانون کہا تھا‘ اگر اسلامی تعلیمات کے مطابق ان کا جائزہ لیا جائے تو ان پر توہین رسالت کا مرتکب ہونے پر سخت ترین سزا لاگو ہوتی تھی۔

(جاری ہے)

انہوں نے اسلامی تعلیمات اور اسلامی کتب کا حوالہ دیتے ہوئے پی ایل ڈی 1976ء لاہور‘ ایم ایل ڈی 1997ء کے تحت آرٹیکل 2 کے مختلف فیصلوں کی کاپیاں بھی عدالت میں پیش کیں۔ انہوں نے پی ایل ڈی 1992ء سپریم کورٹ حاکم خان کیس کا بھی حوالہ دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو ناموس رسالت کی توہین کرنے پر سخت ترین سزا دی جاسکتی تھی۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ میری کوشش ہوگی کہ دو روز سے جاری اپنے موکل کے حق میں دلائل آج ایک گھنٹے میں ختم کرسکوں امید ہے کہ عدالت سے میرے موکل کو قرآن و سنت کے مطابق اور اسلامی تعلیمات کو مدنظر رکھتے ہوئے ریلیف ملے گا۔ انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے توہین رسالت کے متعلق جو کچھ بھی کہا وہ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں ریکارڈ کا حصہ ہے۔

جسٹس (ر) میاں نذیر اختر کی جانب سے دلائل مکمل ہونے کے بعد وفاق کے وکیل ایڈووکیٹ جنرل میاں عبدالرؤف نے اپنے دلائل شروع کئے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر قتل کیس میں گرفتار ممتاز قادری کو ٹرائل کورٹ سے سزا ہوئی ہے کیونکہ انہوں نے سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو اس بناء پر قتل کیا تھا کہ وہ توہین رسالت کے مرتکب ہوئے ہیں۔

عدالت نے میاں عبدالرؤف سے استفسار کیا کہ ممتاز قادری کو ٹرائل کورٹ سے ہونے والی سزا کو آپ کس طرح آئین و قانون کے مطابق پیش کریں گے۔ کیا اسے دی جانے والی سزا آئین و قانون کے مطابق ہے۔ عدالت نے کہا کہ یہ بھی اخبارات میں آیا ہے کہ جب سلمان تاثیر کو قتل کیا گیا تو لوگوں نے مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔ ایڈووکیٹ جنرل میاں عبدالرؤف نے عدالت کو بتایا کہ خوشیاں منانے کے ثبوت نہیں ہیں اور نہ ہی اس کا کوئی ریکارڈ ہے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہاکہ آرٹیکل 295C کے تحت جو چارج شیٹ ممتاز قادری پر لگائی گئی ہے آپ اس کو کس طرح دلائل میں واضح کریں گے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سابق گورنر سلمان تاثیر نے توہین رسالت کے قانون کو کالا قانون کہا تھا۔ کسی مسلمان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ توہین رسالت کے قانون کو کالا قانون کہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے میاں عبدالرؤف سے استفسار کیا کہ آپ سلمان تاثیر کے دفاع میں کوئی اور دلائل پیش کرنا چاہیں گے۔

کیا آپ کے پاس کوئی اور شواہد موجود ہیں جو عدالت میں پیش کئے جاسکتے ہیں تو انہوں نے عدالت کو بتایا کہ سلمان تاثیر قتل کیس درخواست کی جانب سے چیف جسٹس (ر) لاہور ہائیکورٹ اور جسٹس (ر) میاں نذیر اختر اس کیس میں اپنے دلائل دے چکے ہیں اب عدالت کے دائرہ اختیار میں آتا ہے کہ وہ اس کیس کا فیصلہ کس طرح کرتی ہے۔ مذکورہ دلائل کے بعد عدالت نے ممتاز قادری کیس اپیل پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

متعلقہ عنوان :