سلمان تاثیر قتل کیس،ممتاز قادری کے وکیل کے دلائل مکمل نہ ہونے پر سماعت 1 روز کے لئے ملتوی،سلمان تاثیر توہین عدالت کے مرتکب ہوئے تھے اور ان کا یہی انجام تھا، ممتاز قادری کے کیس کا فیصلہ صرف شرعی عدالت ہی کر سکتی ہے،وکیل کے دلائل،شاتم رسول کی سزا مقرر ہے اس میں تاخیریا اضافے کی گنجائش نہیں ،جسٹس شوکت صدیقی

بدھ 11 فروری 2015 09:29

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 11فروری۔2015ء) اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر قتل کیس میں گرفتار ممتاز قادری کے وکیل جسٹس (ر) میاں نذیر اختر کے دلائل مکمل نہ ہونے پر سماعت 1 روز کے لئے ملتوی کر دی۔ عدالت نے دونوں فریقین پر سماعت کے دوران واضح کیاکہ ممتاز قادری کیس کی سماعت عدالت کھلے ذہن سے اور میرٹ پر کر رہی ہے کسی کو شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہونی چاہئے جبکہ ممتاز قادری نے وکیل جسٹس (ر) میاں نذیر اختر نے موقف اختیار کیا کہ سلمان تاثیر توہین عدالت کے مرتکب ہوئے تھے اور ان کا یہی انجام تھا، ممتاز قادری کے کیس کا فیصلہ صرف شرعی عدالت ہی کر سکتی ہے،شاتم رسول ﷺ کے لئے کوئی معافی نہیں ۔

ابتدائی سماعت کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا مرتد اور شاتم کی سزا مقرر نہیں کی گئی ہے لیکن آپ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو خود رسول خدا کا اپنے دلائل میں پیروکار کا حوالہ دے رہے ہیں جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ شاتم رسول کی سزا مقرر ہے اس میں تاخیر اور اضافے کی گنجائش ہی نہیں ہے۔

(جاری ہے)

منگل کے روز ہائیکورٹ میں 3 روز کے وقفہ کے بعد سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر قتل کیس میں گرفتار ممتاز قادری کی اپیل پر سماعت ہوئی۔

جسٹس نور الحق این قریشی اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی پر مشتمل دویژن بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ وفاق کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد میاں عبدالرؤف عدالت میں پیش ہوئے جبکہ درخواست گزار کے وکیل جسٹس (ر) میاں نذیر اختر نے اپنے موکل کے حق میں دلائل دیئے۔ ابتدائی سماعت کے دوران اپنے موکل کے حق میں میاں نذیر اختر نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ممتاز قادری پر دہشت گردی کی دفعات اور قتل کا مقدمہ غیر قانونی بنایا گیا ہے کیونکہ میرے موکل نے سلمان تاثیر کو شان رسالت میں گستاخی کا مرتکب سمجھتے ہوئے قتل کیا ہے۔

میرے موکل کو ماورائے عدالت سزا سنائی گئی ہے اور اب بھی بیرونی طاقتیں جیسا کہ سزائے موت کو ختم کرانے کے لئے سازشیں کر رہی ہیں، مقدس ہستیوں کی توہین کرنے والے کی اسلامی قانون کے مطابق سزا قتل ہے۔ عدالت میرے موکل کو دی گئی سزا ختم کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ سلمان تاثیر نے جو کچھ کیا اس نے اپنے کئے ہوئے کی سزا بھگت لی ہے لیکن میرے موکل کے بھی کچھ بنیادی حقوق ہیں جن کو عدالت عالیہ اپنے اختیارات کے مطابق دیکھ سکتی ہے۔

سماعت کے دوران جسٹس (ر) میاں نذیر اختر نے عدالت کو بتایا کہ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر ایک بڑے صوبے کا گورنر تھا۔ اس نے اپنے ٹی وی پروگراموں میں شان رسول کی گستاخی شروع کر دی اور ناموس رسالت کے قانون کو کالا قانون کہنا شروع کیا۔ ممتاز قادری نے ساڑھے 3 ماہ تک گورنر پنجاب کی گستاخی کو برداشت کیا اور گورنر پنجاب کو توہین رسالت کا مرتکب جانتے ہوئے قتل کیا۔

انہوں نے اپنے موکل کا دفاع کرتے ہوئے کہا میرے موکل کو ایک ہی سزا دی جا سکتی ہے وہ بھی اسلامی تعلیمات کے مطابق۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے استفسار کیا آپ کیسے ثابت کریں گے کہ وہ توہین رسالت کا مرتکب ہوا،اس کا معاملہ بعد میں آئے گا۔ جسٹس (ر) میاں نذیر اختر نے کہا سلمان تاثیر نے کھلے عام توہین رسالت کی مرتکب ہونے والی خاتون آسیہ بی بی کا دفاع کرتے ہوئے جیل میں ان سے ملاقاتیں کیں اور ان کو ہونے والی سزا کی معافی کے لئے اس وقت کے صدر پاکستان کو خط بھی لکھا۔

سابق گورنر نے عدالتی فیصلے کی بھی توہین کی اور گورنر کے بیانات سے پورے ملک میں اور معاشرے میں اضطراب پیدا ہوا۔ انہوں نے کہا افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس وقت کے صدر پاکستان آصف علی زرداری نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے خلاف کوئی قانونی اقدامات نہ کئے حکومت کا فرض تھا کہ گورنر کو توہین رسالت سے روکنے اور معافی کا مطالبہ کرتی۔ انہوں نے کہا کہ ایک دفعہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے بھی ممتاز قادری کے متعلق بیان دیا تھا لیکن بعد میں انہوں نے اپنا موقف واضح کیا تھا اور معذرت بھی کی تھی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا کسی عالم نے گورنر کے خلاف مقدمہ درج کرانے کی کوشش کی درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ایک دفعہ ایک مولوی نے عدالت میں پرچہ درج کروانے کی درخواست دی تو پولیس نے مولوی صاحب کو یہ کہہ کر ٹال دیا کہ آپ کون ہوتے ہیں گورنر کے خلاف مقدمہ درج کروانے والے؟۔ جسٹس (ر) میاں نذیر اختر نے کہا کچھ لوگ اپنے آپ کو جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو وہ آئین سے بھی بالاتر سمجھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے خلاف جو کچھ حکومت نے کرنا تھا افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے اس وقت کی حکومت نے نہ کیا بلکہ ایک ڈیوٹی دینے والے شخص نے کیا‘ حکومت گورنر کے خلاف کوئی کارروائی کرتی تو یہ حادثہ نہ ہوتا۔ انہوں نے عدالت سے استدعا بھی کی کہ سلمان تاثیر نے جو کچھ کیا اس کا نتیجہ پا لیا لیکن عدالت میرے موکل کے حقوق کو مدنظر رکھے تو سزا بھی ختم کر سکتی ہے کیونکہ انہوں نے اسلامی تعلیمات کے مطابق یہ اقدام کیا تھا۔

انہوں نے کہا عدالت میرے موکل کے خلاف اسلامی تعلیمات کے مطابق سلوک کرے گی۔ میاں نذیر اختر نے عدالت میں 1997ء کویمنل لاء کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ قانون کے مطابق ممتاز قادری کو رعایت مل سکتی ہے 302 کے تحت دی گئی سزا کا فیصلہ عدالت نے کرنا ہے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے استفسار کیا کہ ایک شخص مرتد ہو جاتا ہے کیا وہ امتی رہتا ہے؟ انہوں نے کہا جو شخص مرتد ہو جاتا ہے اس کو 3 دن دیئے جاتے ہیں اس کے بعد اگر وہ معافی نہ مانگے وہ امتی نہیں رہتا۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ توہین رسالت سنگین جرم ہے اس میں توبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ مقدس ہستیوں کی توہین کرنے والے شخص کی سزا موت ہی ہے۔ عدالت نے کہا ممتاز قادری کیس کا فیصلہ میرٹ پر کیا جائے گا۔ دونوں فریقین کو اپنے دلائل مکمل کرنے کا پورا موقع فراہم کیا جائیگا۔ عدالت نے کہا ہم نے ممتاز قادری کیس کے دوران اخبارات اور ٹی وی وغیرہ دیکھنا ختم کر دیا ہے تاکہ یہ تاثر نہ جائے کہ یکطرفہ فیصلہ ہو رہا ہے۔

میاں نذیر اختر نے کہا عراق میں جو کچھ ہوا لاکھوں مسلمانوں کو شہید کیا گیا افغانستان میں جو کچھ ہوا پوری مسلمان دنیا اس پر خاموش ہے۔ مسلمانوں میں کمزوریاں پیدا ہو گئی ہیں۔ جسٹس نور الحق این قریشی نے کہا کہ معاشرے میں ذاتی مفادات کی خاطر الزام لگا دیا جاتا ہے۔ میاں نذیر اختر نے کہا میرے موکل کو ماورائے عدالت سزا دی گئی ہے۔ عدالت میں انہوں نے مختلف عدالتوں کے فیصلوں کی نقول بھی پیش کیں۔

اور حضور کے دور اور اسلامی کتب سے مختلف حوالے بھی پیش کئے عدالت میں ممتاز قادری کے وکیل کے دلائل مکمل نہ ہو سکے۔عدالت نے ممتاز قادری کیس کی سماعت 1 روز کے لئے ملتوی کر دی۔ سلمان تاثیر قتل کیس کی سماعت کے لئے جسٹس نور الحق این قریشی اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی عدالت میں ہونے والے معمول کے کیسوں کی سماعت غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دی گئی ہے۔