پاکستان میں پانچ فیصد طبقے نے 95فیصد عوام کو اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے ‘ چوہدری محمد سرور،کبھی بھی باضابطہ طو رپر (ن) میں شمولیت اختیار نہیں کی ،اس کا رکن نہیں ،کبھی لندن پلان کا حصہ نہیں رہا اگر آنے والے سالوں میں بھی یہ بات ثابت ہو جائے تو میں ہر طرح کی سزا بھگتنے کیلئے تیار ہوں ، میری شہریت پاکستانی ہے ،دوبارہ کسی اور ملک کی شہریت کیلئے درخواست نہیں دوں گا ، تحریک انصاف میں شمولیت کی خبریں افواہیں ہیں قریبی رفقاء سے مشاورت جاری ہے بیرون ملک سے واپسی پر متحرک سیاسی کردار کا باضابطہ اعلان کروں گا ‘ سابق گورنر پنجاب

پیر 2 فروری 2015 09:10

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔2فروری۔2015ء)سابق گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے کہا ہے کہ کبھی بھی باضابطہ طو رپر مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار نہیں کی اس لئے اس کا رکن نہیں ،پاکستان میں پانچ فیصد طبقے نے 95فیصد عوام کو اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے جسے توڑنے کیلئے متحد ہو کر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے ،کبھی لندن پلان کا حصہ نہیں رہا اور اگر آنے والے سالوں میں بھی یہ بات ثابت ہو جائے تو میں ہر طرح کی سزا بھگتنے کے لئے تیار ہوں، میری شہریت پاکستانی ہے اور اب دوبارہ کسی اور ملک کی شہریت کے لئے درخواست نہیں دوں گا ، تحریک انصاف میں شمولیت کی خبریں صرف افواہیں ہیں ،قریبی رفقاء سے مشاورت جاری ہے بیرون ملک سے واپسی پر متحرک سیاسی کردار کا باضابطہ اعلان کروں گا ۔

گزشتہ روز میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چوہدری محمد سرور نے کہا کہ میں یکطرفہ ٹکٹ لے کر بیرون ملک نہیں جارہا بلکہ واپس آؤں گا، جب میں پاکستان آیا تھا تو برطانوی شہریت ترک کر دی تھی اور اب دوبارہ کسی ملک کی شہریت کے لئے درخواست دینے کی باتیں صرف افواہیں ہیں ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ پاکستان میں نظام بدلے اور پسے ہوئے طبقے کو ریلیف ملے ۔

ہمارے حکمران برطانیہ اور امریکہ سمیت دیگر ترقی یافتہ ممالک میں جاتے ہیں اور وہاں پر رائج نظام بھی دیکھتے ہیں ، انہیں معلوم ہے وہاں کیسے انصاف ملتا ہے ، انسان کی عزت کیا ہے ، اگر کوئی بیمار ہو جائے تو اسے ہسپتال میں علاج معالجے کے اخراجات کی فکر نہیں ہوتی اگر ہمارے حکمران وہاں پر کامیابی سے چلتے ہوئے نظام دیکھ کر آتے ہیں تو یہاں پر اسے کیوں رائج نہیں کر سکتے۔

سیاسی جماعتیں اس طریقے سے چلیں جیسے جمہوریت چلتی ہے ، اداروں کو اس طرح کام کرنا چاہیے جس طرح دیگر جمہوریت رکھنے والے ممالک میں کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ جب یہاں پر بلدیاتی نظام آئے گا تو اختیارات نچلی سطح پر منتقل ہوں گے ۔ یہاں پر عدلیہ کے نظام میں بہتری اور پولیس کے نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں یہاں پر ٹی وی پر دیکھتا ہوں کہ سیاستدان ایک دوسرے پر ذاتی نوعیت کے حملے کرتے ہیں لیکن یہ بحث نہیں ہوتی کہ حکومت دو سال میں بجلی کے بحران سے نمٹنے میں کامیاب ہو سکی ہے یا نہیں اور اگر نہیں ہو سکی تو اس کا متبادل کیا ہے ۔

یہاں پر ڈھائی کروڑ بچے سکول نہیں جاتے اور کسی بھی حکومت کی کامیابی نہیں ۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہمیں اداروں کو مضبوط کرنا ہے ، حکومت میں آنے والے جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو وہ شیڈو کابینہ نہیں بناتے ، برطانیہ سمیت جن ممالک میں جمہوریت ہے وہاں پر اپوزیشن شیڈو کابینہ بناتی ہے انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ملک کو کس بحران کا سامنا ہے اور اس سے کس طرح نمٹنا ہے اس لئے جب اپوزیشن حکومت میں آتی ہے تو اسے اس کا تجربہ ہوتا ہے جبکہ ہمارے ہاں جن لوگوں کو و زارتیں دی جاتی ہیں انہیں اس کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا اور وہ دو ‘ دو سال صرف سیکھنے میں لگا دیتے ہیں اس لئے میں تمام اپوزیشن جماعتوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ شیڈوکابینہ تشکیل دیں اسی سے ہم بہتر گورننس کر سکتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ میں نے کبھی بھی حقائق نہیں چھپائے ، میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میرا لندن پلان سے بالواسطہ یا بلا واسطہ اس میں کبھی شامل نہیں رہا اور اگر آج سے دو سال ‘ پانچ سال بعد بھی یہ ثابت ہو جائے کہ میں اس میں شریک تھا تو میں ہر طرح کی سزا بھگتنے کے لئے تیار ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ میرے تمام سیاسی جماعتوں سے تعلقات ہیں ۔ سیاسی موقف اپنانا کوئی دشمنی نہیں ہوتا ،اصل بات ایشوز کی ہے اگر ہم نے اپنا قبلہ درست کرنا ہے تو ہمیں کوتاہیوں کی نشاندہی کرنا ہو گی ۔

انہوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے کہا کہ میں آج بھی اس موقف پر قائم ہو کہ اس کی تحقیقات ہونی چاہیے اور جو بھی قصور وار ہو اسے سزا ملنی چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ میری پہلی بھی کوشش تھی کہ عمران خان اور طاہر القادری سے معاملات مذاکرات سے حل کر لئے جائیں اور نوبت دھرنوں تک نہ جائے اور اب بھی خواہش ہے کہ حکومت او رپی ٹی آئی کے معاملات مذاکرات سے ہی حل ہونے چاہئیں۔

پاکستان دہشتگردی کا شکار ملک ہے ، یہاں پر تمام طبقات پسے ہوئے ہیں ،کسانوں کا کوئی پرسان حال نہیں ایسے حالات میں پاکستان تصادم کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے گورنر پنجاب کا عہدہ چھوڑنے کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کو چھوڑنے کے سوال کے جواب میں کہا کہ میں نے کبھی بھی مسلم لیگ (ن) میں باضابطہ شمولیت اختیار نہیں کی تھی اس لئے میں اس کا رکن نہیں ۔

انہوں نے قبضہ مافیا کے حوالے سے کہا کہ برطانیہ میں مقیم ہر تیسرا پاکستانی یہاں پر اپنی جائیداد پر قبضے کیوجہ سے متاثرہ ہے جبکہ پاکستان میں کمزور طبقات بھی اس کا شکار ہیں۔ یہاں ایسا نظام ہے کہ جو شخص جس جائیداد یا مکان پر قابض ہے وہ 80فیصد کا حقدار ہے جبکہ اصل مالک صرف 20فیصد کا حقددار ہے ۔ ہمیں اس نظام کو تبدیل کرنا ہوگا اور ہمیں اصل مالکان کو انکی جائیدادیں واپس کرانا ہوں گی ۔ہر مافیا کے پیچھے کسی نہ کسی بڑے آدمی کا ہاتھ ہوتا ہے ۔ صرف اس میں سیاستدانوں کو شریک نہ کیا جائے بلکہ اس میں جاگیردار‘ چوہدری او رہر با اثر آدمی شامل ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں مشاورت کے لئے بیرون ملک جا رہا ہوں اور واپس آ کر دو سے تین ہفتوں میں متحرک سیاست کا آغاز کروں گا۔