سپریم کورٹ میں شہری حدود میں رکاوٹوں اور تجاوزات کے مقدمے کی سماعت سی ڈی اے کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ کا جائزہ لینے کیلئے 3 فروری تک ملتوی، سفارتخانوں اور پولیس کو تجاوزات کے معاملات میں کوئی نوٹس جاری نہیں کئے گئے‘ یہ معاملات حکومت کے دائرہ کار میں آتے ہیں سی ڈی اے کے نہیں،سی ڈی اے رپورٹ،کیا سفارتخانے اور پولیس والے قانون کے پابند نہیں‘ سارے کام ہم نے نہیں کرنے ‘ انصاف کی فراہمی جلد ہوسکتی ہے اگر ادارے اپنا کام کریں‘ کسی کو بھی شہری حدود میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے‘ قانون سے کوئی بالاتر نہیں‘ سی ڈی اے کی رپورٹ کا جائزہ لیں گے‘ یہ ڈاکے چوری چکاری تو تہذیب یافتہ ممالک میں بھی ختم نہیں ہوسکے یہاں کیا ختم ہوں گے ،جسٹس جواد ایس خواجہ کے ریمارکس ، سفارتخانوں کے حوالے سے اگر سکیورٹی اداروں کو اتنے ہی تحفظات ہیں تو پھر انہیں ڈپلومیٹک انکلیو میں کیوں منتقل نہیں کردیا جاتا‘ ان رکاوٹوں نے عام آدمی کا جینا دوبھر کردیا ہے‘ اس طرح کے معاملات کی اجازت نہیں دے سکتے،جسٹس سرمد جلال عثمانی

منگل 27 جنوری 2015 07:58

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔27جنوری۔2015ء) سپریم کورٹ نے شہری حدود میں رکاوٹوں اور تجاوزات کے مقدمے میں سی ڈی اے کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ کا جائزہ لینے کیلئے سماعت 3 فروری تک ملتوی کردی‘ سی ڈی اے نے رپورٹ میں بتایا ہے کہ سفارتخانوں اور پولیس کو تجاوزات کے معاملات میں کوئی نوٹس جاری نہیں کئے گئے‘ یہ معاملات حکومت کے دائرہ کار میں آتے ہیں سی ڈی اے کے نہیں، جس میں تمامتر معاملات سکیورٹی ایجنسیاں سرانجام دیتی ہیں جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا سفارتخانے اور پولیس والے قانون کے پابند نہیں‘ سارے کام ہم نے نہیں کرنے‘ ہمارا کام آئین اور قانون کی تشریح کرنا ہے‘ اس ملک میں غریب تو غریب امیر کا بھی کوئی پرسان حال نہیں‘ سی ڈی اے اگر ان معاملات کو حل نہیں کرسکتی تو سب کو ایک لیٹر کیوں نہیں جاری کردیتی کہ ہم ان کو سکیورٹی نہیں دے سکتے‘فوری انصاف کا یہ حال ہے کہ دعویٰ دائر ہونے کے 25‘ 25 سال گزر جاتے ہیں مگر انصاف نہیں ملتا‘ انصاف کی فراہمی جلد ہوسکتی ہے اگر ادارے اپنا کام کریں‘ کسی کو بھی شہری حدود میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے‘ قانون سے کوئی بالاتر نہیں‘ سی ڈی اے کی رپورٹ کا جائزہ لیں گے‘ یہ ڈاکے چوری چکاری تو تہذیب یافتہ ممالک میں بھی ختم نہیں ہوسکے یہاں کیا ختم ہوں گے جبکہ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے ریمارکس دئیے کہ سفارتخانوں کے حوالے سے اگر سکیورٹی اداروں کو اتنے ہی تحفظات ہیں تو پھر انہیں ڈپلومیٹک انکلیوں میں کیوں منتقل نہیں کردیا جاتا‘ ان رکاوٹوں نے عام آدمی کا جینا دوبھر کردیا ہے‘ اس طرح کے معاملات کی اجازت نہیں دے سکتے۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس پیر کے روز دئیے جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت شروع کی تو اس دوران سی ڈی اے کے وکیل ایس اے رحمن پیش ہوئے اور انہوں نے عدالت میں رپورٹ پیش کی اور عدالت کو بتایا کہ سی ڈی اے نے تمام اداروں کو سکیورٹی کے نام پر رکاوٹوں اور تجاوزات پر نوٹس جاری کئے تھے تاہم سفارتخانوں اور پولیس کے لوگوں کو یہ نوٹس جاری نہیں کئے گئے اس پر عدالت نے انتہائی برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ کیا سفارتخانے اور پولیس والے قانون کے پابند نہیں ہیں۔

ان کیساتھ یہ امتیازی سلوک کیوں رواء رکھا جارہا ہے۔ اس پر ایس اے رحمن نے عدالت کو بتایا کہ بعض سفارتخانے غریب ہیں ان کو پلاٹ دے دئیے ہیں تاہم ابھی تک وہ کسی قسم کی تعمیرات نہیں کرسکے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ سفارتخانوں کی سکیورٹی اور دیگر معاملات سکیورٹی ایجنسیوں کے پاس ہیں اس میں ہم مداخلت نہیں کرسکتے۔ اس طرح کے معاملات میں حکومت ہی کوئی حکم جاری کرسکتی ہے۔

کچھ لوگوں نے نجی سکیورٹی کی سہولیات حاصل کررکھی ہیں اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ جن کے پاس پیسہ ہے وہ سکیورٹی اگر حاصل کررہے ہیں تو اچھی بات ہے مگر اس کیلئے عام لوگوں کیلئے کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہئے۔ چوری چکاری اور ڈاکے کوئی نئی بات نہیں ہیں یہ تہذیب یافتہ ممالک میں آج بھی ختم نہیں ہوسکے۔ ہمیں سمجھ نہیں آتی عدالت اپنا کام کرے یا حکومت کا۔

ہر کام عدالت نے نہیں کرنا کچھ کام حکومت بھی کرلے۔ فوری انصاف کا تو یہ حال ہے کہ دعویٰ دائر ہوجائے تو اس کے فیصلے تک پچیس سال سے بھی زیادہ کا عرصہ لگ جاتا ہے۔ درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ میٹرو منصوبے کی وجہ سے بھی لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے اور اگر جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں۔ اس پر عدالت نے کہا کہ سی ڈی اے نے جو ماسٹر پلان بنایا تھا اس میں عوامی ٹرانسپورٹ کا کوئی منصوبہ نہیں تھا جس کی وجہ سے میٹرو جیسے منصوبے شروع کرنے پڑے ہیں۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اس ملک کا حال یہ ہے کہ یہاں غریب تو غریب امیر کا بھی کوئی پرسان حال نہیں۔ جب تک لوگوں کو آئین اور قانون کے مطابق حقوق نہیں ملتے مسائل بڑھتے رہیں گے۔ بعدازاں عدالت نے سی ڈی اے کی رپورٹ پر غور کرنے کیلئے سماعت 3 فروری تک ملتوی کردی۔