اسلام آباد ،مولانا عبدالعزیز کی جامعہ حفصہ میں نظر بندی کے دوران معافی نامہ کی رپورٹ وزارت داخلہ میں جمع ،معافی نامہ میں دہشتگردوں سے لاتعلقی ،جامعہ حفصہ طالبات کی داعش کو بھیجی ویڈیو سے متعلق حقائق اور انتہاء پسندی کے خاتمہ میں حکومت اور فوج کے ساتھ مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی

منگل 20 جنوری 2015 09:08

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔20جنوری۔2015ء) وفاقی پولیس نے لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز کی جامعہ حفصہ میں نظر بندی کے دوران معافی نامہ کی رپورٹ وزارت داخلہ میں جمع کرادی ،معافی نامہ میں دہشتگردوں سے لاتعلقی ،جامعہ حفصہ طالبات کی جانب سے داعش کو بھیجی جانے والی ویڈیو سے متعلق اصل حقائق اور انتہاء پسندی کے خاتمہ میں حکومت اور فوج کے ساتھ مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی ہے، وزارت داخلہ سے جواب موصول ہونے کے بعد باضابطہ گرفتاری سمیت دیگر طریقہ کار اپنایا جائے گا ۔

خبر رساں ادارے کو ذرائع نے بتایا کہ مولانا عبدالعزیز کے خلاف درج تھانہ آبپارہ میں ایف آئی آر کے حوالے سے مقامی عدالت سے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے باوجود عدم گرفتاری کی وجہ نقص امن بتائی جاتی ہے۔

(جاری ہے)

دوسری جانب ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ تھانہ آبپارہ میں مولانا کے خلاف درج ایف آئی آر کے حوالے سے ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی تاہم مولانا عبدالعزیز کی جانب سے آئی جی پولیس کو تحریری معافی نامہ بھی جمع کرادیا گیا ہے جس میں دہشت گردوں سے تعلق اور انتہاء پسندی کی مزمت بھی کی گئی ہے ۔

لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز کی جانب سے تحریری معافی نامہ میں انتہاء پسندی کے خاتمہ میں حکومت اور فوج کے ساتھ مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی ہے جس کی رپورٹ وزارت داخلہ کو بھجوا دی گئی ہے ۔ذرائع نے خبر رساں ادارے کو بتایا کہ لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز کواسلام سیکٹر جی سیون تھری فور میں واقع جامعہ حفصہ میں نظر بندی کے دوران ان سے ملاقات پر مکمل پابندی عائد کی گئی ہے ۔

اس دوران وفاقی پولیس مولانا عبدالعزیز سے ہونے والے موبائل رابطوں اور انٹرنیٹ رابطو ں کی تفصیلات جمع کررہی ہے ۔خبر رساں ادارے کے مطابق مولانا عبدالعزیز کے خلاف تھانہ آبپارہ میں درج ایف آئی آر سید اظہر نعیم بخاری کی مدعیت میں درج کی گئی جس میں دفعہ 506(2)لگائی گئی ہے اس کے مطابق مولانا کے خلاف ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی اس حوالے سے اعلیٰ حکام سے رابط میں ہیں جس کے بعد باضابطہ گرفتاری پر غور کیا جائے گا۔