کسی ریاستی معاملے میں عدم شفافیت پر ہم سے رجوع کیاجائیگاتواس کاآئین وقانون کے مطابق فیصلہ دیناہماری آئینی ذمہ داری ہے ،جسٹس ثاقب نثار،عدالت نے توصرف یہ دیکھناہے کہ بولی شفاف طریقے سے لگائی تھی یانہیں،جسٹس اعجازافضل

بدھ 14 جنوری 2015 08:52

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔14جنوری۔2015ء )سپریم کورٹ میں ریلوے گولف کلب کیس کی سماعت کے دوران جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاہے کہ ریاستی حکام اپنافرض صحیح طورپر ادانہیں کررہے ہیں اگر کلب کی کھلے عام بولی دی جاتی توممکن تھاکہ بولی اور بھی زیادہ لگ جاتی اور ریاست کوفائدہ ہوتا،کسی ریاستی معاملے میں عدم شفافیت پر ہم سے رجوع کیاجائیگاتواس کاآئین وقانون کے مطابق فیصلہ دیناہماری آئینی ذمہ داری ہے ،بادی النظر میں حکومت اورعوام دونوں کونقصان ہواہے ،ایک ہی دن میں سارے معاملات نمٹاکراس میں شک کی گنجائش پیداکردی گئی ہے ،چوررسید نہیں دیتا،جبکہ جسٹس اعجازافضل خان نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے کلب کی آمدن کاجائزہ نہیں لیناعدالت نے توصرف یہ دیکھناہے کہ بولی شفاف طریقے سے لگائی تھی یانہیں۔

(جاری ہے)

انھوں نے یہ ریمارکس منگل کے روزدیے ہیں ،جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت شروع کی توکامیاب بولی دہندہ کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کاآغازکیااورموقف اختیار کیاکہ ہم نے اس وقت ڈیڑھ ارب روپے کی سرمایہ کی جس وقت اس ملک میں فوجی حکومت آچکی تھی اور ساری معیشت تباہ وبرباد ہوچکی تھی ہم اب تک پانچ ارب روپے دے چکے ہیں اور آٹھ ارب روپے دینے کے لیے ہم اپنی بات پر قائم ہیں 2001کے حالات کوآج کے حالات سے موازنہ کرنازیادتی ہوگی ،ہم سے اب بھی گلہ ہے کہ وفادار نہیں ،اس پر جسٹس ااعجازافضل خان نے کہاکہ اگر ہم پہلی بولی منسوخ کرکے دوبارہ اوپن بولی کاکہیں اور آپ کوسب سے پہلے موقع دیاجائے توآپ کیاکہتے ہیں اس پرمخدوم علی خان نے کہاکہ وہ یہ نہیں سوچ سکتے انھوں نے کافی بڑی سرمایہ کاری کررکھی ہے جس کے لیے عدالت سول کارروائی کے لیے احکامات جاری کرسکتی ہے اس پر جسٹس میاں ثاقب نے کہاکہ کیاہم سول عدالت کوبھجوادیں کہ وہ اس معاملے کاچھ ماہ میں فیصلہ کردے اس پر مخدوم نے کہاکہ جوقانون کہتاہے وہی کیاجائے ہم نے اس ملک کے ساتھ بھلائی ہی کی ہے اب آگے عدالت کی مرضی ہے جوفیصلہ دے گولف کلب کے وکیل علی ظفر ایڈووکیٹ نے دلدئل کاآغازکرتے ہوئے اپنے دلدئل کے خاص خاص نکات پیش کیے اور کہاکہ مذکورہ مقدمہ کی آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت سماعت نہیں کی جاسکتی کیونکہ نہ تویہ عوامی دلچسپی کامعاملہ ہے اور نہ ہی اس میں کسی کے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہوئے ہیں اب توآئین کے آرٹیکل 10اے کی موجودگی میں شفاف ٹرائل بھی ضروری ہے ،ویسے بھی بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں اس طرح کے معاملات کافیصلہ متبادل تنازعات قراردادوں کی روشنی میں کیاجائیگافرض کرلیاجائے کہ عدالت درج بالاتمام نکات کومستردکردیتی ہے توایسی صورت میں منصوبے کے زمینی حقائق کوبھی مدنظر رکھناہوگاتبھی فیصلہ کرناہوگاان کے دلائل ابھی جاری تھے کہ عدالت نے وقت ختم ہونے کی وجہ سے مقدمے کی مزیدسماعت آج بدھ تک کے لیے ملتوی کردی ۔

متعلقہ عنوان :