پاکستان علماء کونسل نے 21 ویں آئینی ترمیم کی مکمل حمایت و تائید کردی ،دہشت گردی کے مخالف ہیں حکومت دہشت گردی کی وصاہت کرے‘ سیاستدان بھی مدارس اور مساجد کو سیاست کے طور پر استعمال کرنے سے گریز کریں،پاکستان علماء کونسل کے زیر اہتمام امن کانفرنس کا اعلامیہ،مولانا فضل الرحمن مساجد و مدارس کو خوفزدہ نہ کریں یہ ملک مسلمانوں کا ہے کوئی مذہبی طبقے کے خلاف جنگ نہیں کررہا‘ حکومت قتل و غارت میں ملوث مدارس کی نشاندہی کرے‘ بغیر ثبوت کسی مسجد یا مدارس پر حملے کی اجازت نہیں دیں گے‘ 21 ویں ترمیم کی کڑوی کوکھانا پڑے گا‘ آئندہ ہفتے قومی کانفرنس کا انعقاد تمام مکاتب فکر کے لئے داراالفتار بنائیں گے ، علامہ طاہر محمود اشرفی کا پریس کانفرنس سے خطاب

ہفتہ 10 جنوری 2015 08:52

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔10 جنوری۔2015ء) پاکستان علماء کونسل نے 21 ویں آئینی ترمیم کی مکمل حمایت و تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کے مخالف ہیں حکومت دہشت گردی کی وصاہت کرے‘ سیاستدان بھی مدارس اور مساجد کو سیاست کے طور پر استعمال کرنے سے گریز کریں امن کانفرنس کا اعلامیہ‘ جبکہ علامہ طاہر محمود اشرفی نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن مساجد و مدارس کو خوفزدہ نہ کریں یہ ملک مسلمانوں کا ہے کوئی مذہبی طبقے کے خلاف جنگ نہیں کررہا‘ حکومت قتل و غارت میں ملوث مدارس کی نشاندہی کرے‘ بغیر ثبوت کسی مسجد یا مدارس پر حملے کی اجازت نہیں دیں گے‘ 21 ویں ترمیم کڑوی گولی ہے جسے کھانا پڑے گا‘ آئندہ ہفتے قومی کانفرنس کا انعقاد تمام مکاتب فکر کے لئے داراالفتار بنائیں گے علمی تحقیقی ادارہ قائم کیا جائے گا اور اس کے خلاف پراپیگنڈہ بند کیا جائے مدارس امن کا درس دیتے ہیں اسلام میں ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے دہشت گردوں کا کوئی مذہب اور کوئی عقیدہ نہیں ہوتا۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو اسلام آباد میں امن کانفرنس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب اور علامیہ سناتے ہوئے کیا۔ علامہ طاہر اشرفی نے کہا ژکہ 21 ویں آئینی ترمیم کی پاکستان علماء کونسل بھرپور حمایت کرتی ہے اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے حکومت اور پاک فوج کے ساتھ ہین لیکن ہمارا مطالبہ ہے کہ دہشت گرد کی تعریف واضح ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ خصوصی عدالتوں کی تمام تر تحفظات کے باوجود اس لیے حمایت کرتے ہیں کہ جب پولیس ‘ عدلیہ سمیت دہشت گردی سے سارا نظام کانپ رہا ہے تو ہم اس کی حمایت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ جن مساجد اور مدارس کے حوالے سے شکایت ہے کہ وہ عسکریت پسندی یا دہشت گردی مین ملوث ہیں ان کا نام بتایا جائے اس کو ہم نہ رکھا جائے کیونکہ اس سے قومی اتفاق رائے کی فضا متاثر ہورہی ہے انہوں نے مذہبی سیاسی رہنماؤں کا نام لیے بغیر کہا کہ ان سیاستدانوں کو بھی اپنی سیاست کیلئے مسجد و مدارس کو استعمال نہیں کرنا چاہیے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مسلمان رہتے ہیں عدلیہ اور میڈیا آزاد ہیں ایسی صورتحال میں دعوت اسلام دینے والون کو پریشان نہیں ہونا چاہیے انہوں نے کہ اکہ حکومت بھی بتائے کہ کون سے ایسے مدارس و مساجد ہیں جو ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یورپی ممالک خصوصاً فرانس اور جرمنی میں ہونے والے فسادات کی مذمت کرتے ہیں مسلم اور غیر مسلم قائدین سے مطالبہ کیا کہ وہ اس مسئلے پر فوراً اجالس بلا کر اتفاق رائے پیدا کریں تاکہ کسی بڑے تصادم سے بچا جاسکے۔ انہوں نے اسلامی سربراہی کانفرنس بلانے کے بھی مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یورپ مین ایک بڑی تعداد مسلمانوں کی بستی ہے اس سلسلے میں اسلامی ممالک کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے پاکستان سمیت یورپی ممالک میں مکالمے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ چند افراد کی جانب سے مدارس العربیہ کے خلاف پراپیگنڈہ کیا جارہا ہے جو کہ نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ اس سلسلے میں فی الفور رکنا چاہیے انہوں نے کہا کہ پورے ملک میں بسی ہزار مدارس ہیں جن میں پچیس لاکھ سے زائد طلباء دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں انہوں نے کہاکہ مدارس امن و آشتی کی تعلیم دیتے ہیں دہشت گردوں کا کوئی مذہب‘ مسلک یا عقیدہ نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے حکومت اور افواج پاکستان جو بھی غیر جانبدارانہ قدم اٹھائیں گے ہم اس کی مکمل تائید کریں گے اس موقع پر انہوں نے تمام مکاتب فکر پر مشتمل داراالفتار قائم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے علمی تحقیقی ادارہ بھی بنانے کا اعلان کردیا جبکہ انہوں نے کہا کہ ملک میں قومی یکجہتی کیلئے آئندہ ہفتے قومی کانفرنس بلائیں گے اور ملک کی موجودہ صورتحال زیر بحث آئے گی۔

ایک سوال کے جواب میں علامہ طاہر اشرفی نے کہا کہ 21 ویں آئینی ترمیم سے کوئی خطرہ محسوس کرتے ہیں اور نہ ہی مدارس و مساجد کو اس سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت ہے انہوں نے کہ اکہ مدرسہ کے خلاف اگر کوئی شکایت ہے تو حکومت واضح طور پر بتائے بعیر ثبوت کے کسی مدرسہ پر حملہ آور ہونے کی اجازت نہیں دیں گے جو لوگ مساجد و مدارس کے نام پر قتل و غارت گری میں ملوث ہیں انہیں بے نقاب کیا جائے۔

دہشت گردی کیخاتمے کیلئے پہلے ہی حکومت اداروں کے ساتھ تھے اور اب بھی ان کے ساتھ ہیں ایک سوال کے جواب میں علامہ طاہر اشرفی نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن مدارس و مساجد کو نہ ڈرائیں مدارس مساجد کو کچھ نہیں ہوگا البتہ دیگر سیاستدانوں سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی سیاست مدارس و مساجد پر مت چمکائیں ایک اور سوال کے پر انہوں نے کہاکہ اسلام کسی بے گناہ کے قتل کو پوری انسایت کے قتل کے مترادف سمجھتا ہے۔

فرانس میں ہونے والے دہشت گردی کے حملے کی مذمت کرتے ہیں۔ ایک اور سوال کے جواب پر انہوں نے کہا کہ ملی یکجہتی کونسل اور پاکستان علماء کونسل کی مشاورت سے لاؤڈ سپیکر کے غلط استعمال پر پابندی لگائی گئی تھی اس سلسلے میں علماء کرام بھی اس بات کو ملحوظ خاطر رکھیں۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام اور پاکستان علامئے کونسل 2 علیحدہ علیحدہ اور آزاد جماعتیں ہیں دونوں کا موقف بھی مختلف ہوسکتا ہے۔

ایک اور سوال پر انہوں نے کہاکہ 21 ویں ترمیم اب منظور ہوچکی ہے اصلاحات کیلئے وقت درکار ہے ہمیں اب یہ کڑوی گولی کھانی پرے گی‘ مولانا عبدالعزیز کے حوالے سے سوال کے جواب میں علامہ طاہر اشرفی نے کہ اکہ سانحہ پشاور کی مذمت مولانا عبدالعزیز نے کی ہے جامع حفصہ سرکاری نہیں بلکہ ایک پرائیویٹ ادارہ ہے۔ مولانا کو رکھنے یا نکالنے کا فیصلہ بھی وہی ادارہ کر سکتا ہے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ ایک شخص کی رائے کو تمام لوگوں کی رائے نہیں سمجھ لینا چاہیے مولانا عبدالعزیز کی ایک الگ رائے ضرور ہے مگر ہمیں قومی اتفاق رائے کو مدنظر رکھنا چاہیے انہوں نے کہاکہ پاکستان اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ جہاں کوئی مدارس و مساجد کے خلاف جنگ نہیں ہوگی۔