سینیٹ قائمہ کمیٹی نیشنل ہیلتھ سروسز کا بیرون ملک رائل کالجز سے پڑھے افراد کو سرکاری ملازمت اور پی ایم ڈی سی سے رجسٹریشن کی سہولت پر شدید برہمی کا اظہار،حکومت 3ہزار پاکستانی سپیشلسٹ ڈاکٹرز کی پی ایم ڈی سی جلد رجسٹریشن کرے ،تجویز

بدھ 7 جنوری 2015 09:29

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔7 جنوری۔2015ء )سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل ہیلتھ سروسز نے بیرون ملک رائل کالجز سے پڑھے ہوئے افراد کو سرکاری ملازمت دینے اور پی ایم ڈی سی سے رجسٹریشن کی سہولت پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کالج آف فیزیشنز اینڈ سرجنز سے فارغ التحصیل گریجوگیٹ ڈاکٹرز طب کے شعبے میں خصوصی تربیت کے حامل ہزاروں سپیشلسٹ ڈاکڑز کی پی ایم ڈی سی کی طرف سے رجسٹریشن نہ کرنے اور باہر سے پڑھ کر آنے والوں سرکاری فراہم کی جا تی ہے ، حکومت کو تجویز کیا گیا کہ 3ہزار پاکستانی سپیشلسٹ ڈاکٹرز کی پی ایم ڈی سی جلد رجسٹریشن کرے ۔

اجلاس میں ہیلتھ سروسز کی وزیر مملکت سائرہ افضل تارڈ نے کہا کہ پی ایم ڈی سی اور کالج آف فیزیشنز کے آپس کے جھگڑوں کی وجہ سے مسائل ہیں جنہیں دور کرنے کیلئے حکومت کوششیں کر رہی ہے۔

(جاری ہے)

سائرہ افضل تارڈ نے کہا کہ دہشت گردی کے حوالے سے پولیو مہم میں شدید مشکلات تھیں ٹیموں پر حملے ہوتے تھے ۔ لوگ خوف زدہ تھے لیکن دہشت گردی کے خلاف پاک فوج اور حکومت کے سخت اقدامات کی وجہ سے پولیو مہم میں بہتری آئی ہے ۔

کمیٹی کا اجلاس منگل کو کنوینئر سینیٹر حسیب خان کی سربراہی میں پارلیمنٹ ہاوس میں ہوا جس میں اراکین کمیٹی کے علاوہ ہیلتھ سروسز کی وزیر مملکت سائرہ افضل تارڑ اور وزارت نیشنل ہلیتھ ، پی ایم ڈی سی،ڈریپ کے ا علی حکام نے شرکت کی ۔ اجلا س میں وزیر مملکت سائرہ افضل تارڑ نے کمیٹی کو بتایا کہ 18 رویں ترمیم جلد بازی میں کی گئی صوبے اختیارات تو مانگتے ہیں لیکن ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہے ۔

وسائل اور اختیارات ملے ہیں تو خدمت بھی کی جانی چاہیتے ۔ کمیٹی اٹھارویں ترمیم سے پہلے اور بعد کے مسائل کا جائزہ لے کر راجہ محمد ظفر الحق کی سر براہی میں قائم حکومتی کمیٹی کو سفارشات بھجوائے اور کہا کہ صحت اور تعلیم کو صوبوں کو واپس کرنے سے ایچ ای سی اور ڈریپ کی ضرورت پیدا ہوئی کمیٹی کے کنوینئر سینیٹر حسیب خان نے کہا کہ جعلی دوائیوں اور ڈاکٹروں کی وجہ سے سینکڑوں افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں بالخصوص جعلی دوائیوں کے تدارک کیلئے سخت اقدامات کی ضرورت ہے اور کہا کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے مستقل سی او کو فوراً بھرتی کیا جائے اور جعلی دوائیاں بنانے والوں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے ۔

سینیٹر ڈاکٹر کریم احمد خواجہ نے کہا کہ کالج آف فیزیشن اینڈ سرجن کے چیئر مین آج کے اجلاس میں موجود نہیں کمیٹی مسائل کے حل اور حکومت کو مثبت تجاویز کیلئے کردار ادا کرنا چاہتی ہے لیکن سی ایف ایس پی شاید اپنے آپ کو پارلیمنٹ سے بالا تصور کرتی ہے اور کہا کہ پی ایم ڈی سی وفاقی ادارہ ہے لیکن باہمی جھگڑوں کی وجہ سے مسائل کا شکار ہے بھارت کی ریاستوں میں صوبائی پی ایم ڈی سی کے تجرے بے سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور کہا کہ تین ہزار سپیشلسٹ ڈاکٹرز کو فوراً رجسٹر کیا جانا چاہیے ۔

ڈاکٹر شعیب شفیع ،ڈاکٹر رضوانہ چوہدری ، ڈاکٹر ممتاز مروت نے آگاہ کیا کہ سی پی ایس پی دنیا کا بہترین ادارہ ہے ،ادارے کو یورپین یونین سے گولڈ میڈل اور فرانس میں بھی اعلیٰ کارکردگی کا ایوارڈ مل چکا ہے ۔تینوں ڈاکٹرز نے اس بات پر دکھ کا اظہار کیا کہ پی ایم ڈی سی بیرون ملک سے تعلیم حاصل کرنیوالوں کو تو رجسٹر کرتی ہے لیکن دنیا کے بہترین ادارے سے تعلیم حاصل کرنے والے تین ہزار سپیشلٹ ڈاکٹرز در بدر ہیں اور کمیٹی سے درخواست کی کہ ان سپیشلسٹ ڈاکٹرز کے مستقبل کو بہتر بنانے کیلئے اور ملک میں سپیشلسٹ ڈاکڑ کی کمی دور کرنے کیلئے رجسٹریشن کی جائے ۔

سیکریٹری وزارت ایوب شیخ نے کہا کہ وزارت صحت کے شعبے میں بہتری کے کئی اقدامات کئے ہیں جن کے بارے میں اگلے اجلاس میں جامع بریفنگ دی جائیگی ۔ ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر اسد حفیظ نے کہا کہ پی ایم ڈی سی اور سی پی ایس پی کے درمیان جھگڑوں کا خاتمہ ضروری ہے 2012 میں گئی ترمیم سے مسائل پیدا ہوئے کمیٹی ترمیم کو ختم کرنے میں کردار ادا کرے قائمقام سی ای او ڈریپ ارشد خان نے آگاہ کیا کہ پراسیسنگ پالیسی کی سمری وزیراعظم کو منظوری کیلئے بجھوا دی گئی ہے سی ای او کی مستقل تعیناتی کے لئے انٹرویو مکمل ہو چکے 9 تاریخ کے پالیسی بورڈ کے اجلاس میں مستقل منظوری مل جائے گی ڈریپ ایکٹ کی ترمیم کیلئے وزارت قانون سے اجازت مل گئی ہے ڈائریکٹر ڈریپ ڈاکٹر جاوید اقبال نے انکشاف کیا کہ گدون امازئی میں جعلی دوائیاں بنانے کی فیکٹری اور60 لاکھ کی مشینری پکڑی گئی صوبہ خیبر پختونخوا کے ایک بڑے سیاستدان کے گھر سے کروڑوں روپے کی جعلی ادوایات بنانے کا سامان پکڑا گیا پاکستان 2 سو ملین ڈالر کی ادویات ایکسپورٹ کر رہا ہے 48 کمپنیوں کو شوکاز نوٹس جاری کیے گئے ڈاکٹر جاوید اقبال نے کمیٹی کے اجلاس میں بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دوائیاں بنانے کے 6 سویونٹس کیلئے صرف 13 انسپکٹرز کے ساتھ کام کرنا مشکل ہے اور 4 سو ملازمین کی کمی کا سامنا ہے بین الاالصوبائی کوالٹی کنٹرول ویجلنس کمیٹی قائم کر دی گئی ہے اور آگاہ کیا کہ بین الا قوامی سطح کی ڈبلیو ایچ او سے تصدیق شدہ دو لیبارٹریاں آئندہ ایک سال میں قائم کر دی جائیں گئیں کمیٹی کے اجلاس میں سفارش کی گئی کہ نیشنل لیبارٹری این آئی ایچ کو واپس بحال کیا جائے اور فیصلہ کیا گیا کہ کمیٹی کے اراکین لیبارٹری کا خود بھی معائنہ کریں گے ۔

اجلا س میں سینیٹر ز ثریا امرالدین ، فرحت عباس، ڈاکٹر کریم احمد خواجہ ، نے شرکت کی ۔

متعلقہ عنوان :