”دہشت گردی کیخلاف اعلان جہاد“،قومی اسمبلی ، سینیٹ نے آئین میں اکیسویں ترمیم اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بل اتفاق رائے سے منظور کرلئے، 78 ارکان نے بل کے حق میں ووٹ دیا،جے یو آئی ف کے اراکین نے حصہ نہ لیا،وفاقی حکومت کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ کسی بھی فرد یا گروہ کے خلاف مقدمہ ان خصوصی عدالتوں کو منتقل کر سکے گی، فوجی عدالتوں کو دہشت گردی میں ملوث گروپوں کے خلاف بھرپور کارروائی کا اختیار حاصل ہوگاجس کے خلاف اپیل بھی نہیں کی جا سکے گی

بدھ 7 جنوری 2015 09:48

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔7 جنوری۔2015ء) قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کے بعد سینیٹ نے بھی آئین میں اکیسویں ترمیم اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بل اتفاق رائے سے منظور کرلئے‘ 78 ارکان نے بل کے حق میں ووٹ دیا جمعیت علمائے اسلام ف کے اراکین نے کارروائی میں حصہ نہیں لیا۔ اس بل کے تحت اعلیٰ عدلیہ سے متعلق آئین کے آرٹیکل 175 اور پاکستان آرمی سے متعلق آئین کے آرٹیکل 245 میں ترمیم شامل ہیں۔

اس ترمیم کا دورانیہ دو سال ہوگا۔ جبکہ وفاقی حکومت کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ کسی بھی فرد یا گروہ کے خلاف مقدمہ ان خصوصی عدالتوں کو منتقل کر سکے گی۔ فوجی عدالتوں کو دہشت گردی میں ملوث ہر طرح کے عناصر ان گروپوں کے خلاف بھرپور کارروائی کا اختیار حاصل ہوگاجس کے خلاف اپیل بھی نہیں کی جا سکے گی۔

(جاری ہے)

منگل کے روز سینیٹ (ایوان بالا کے اجلاس کے دوران) وفاقی وزیر قانون سینیٹر پرویز رشید نے دستور (اکیسویں ترمیم) کا بل 2015 ء ایوان میں پیش کیا ایوان نے اس تحریک کی اتفاق رائے سے منظوری دے دی تحریک کے حق میں 78 جبکہ مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں آیا۔

ایوان سے بل کی شق وار منظوری لی گئی۔ بعد ازاں وزیر قانون نے ایوان میں بل پیش کیا جسے اوپن ڈویژن کی بنیاد پر اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا اس کے حق میں 78 اراکین نے ووٹ دیا۔ اکیسویں آئینی ترمیم میں کہا گیا کہ ملک میں غیر معمولی حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ دہشت گردی اور پاکستان کے خلاف جنگ کا ماحول پیدا کرنے والوں کے خلاف تیزترین سماعت کیلئے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں۔

اس میں کہا گیا کہ موجودہ حالات میں پاکستان کو غیر معمولی صورتحال کا سامنا ہے۔ اس کامقصد دہشت گرد گروپوں کی جانب سے مذہب یا فرقے کا نام استعمال کرکے ہتیھار اٹھانے کا دعویٰ کرنے جبکہ مقامی اور غیر ملکی امداد کے حصول سے غیر ریاستی عناصر کو روکنا ہے۔ اس غرض سے پاکستان آرمی کے خلاف دہشت گرد گروپوں اور مذہب کا نام استعمال کرنے والے اسلحہ بردار دہشت گردوں کے ٹرائل کیلئے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں گی۔

آرمی پبلک سکول پشاور میں سولہ دسمبر 2014 ء کو افسوسناک سانحہ کے بعد پاکستان کے عوام نے منتخب نمائندوں کے ذریعے پاکستان سے دہشت گردی کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کیلئے غیر متزلزل عزم کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان کی بقاء کیلئے ان اقدامات کو آئینی ترمیم کے ذریعے تحفظ دیا جائے گا۔ جنگ کی صورتحال سے نمٹنے سے متعلق آئین کے آرٹیکل 245 کے ذریعے پاک فوج کے دیئے گئے اختیارات سے متعلق آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2015 ء میں بھی ترمیم کیلئے پیش کردہ بل میں ترمیم کے بعد کسی بھی دہشت گرد گروپ یا اس سے تعلق رکھنے والے شخص جو مذہب یا مسلک کی بنیاد پر پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھائے گا مسلح افواج ‘ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں‘ فوجی تنصیبات ‘ اغواء برائے تاوان ‘ کسی شخص کو قتل یا زخمی‘ بارودی مواد کی نقل و حمل اور اسے ذخیرہ کرنے میں ملوث‘ خود کش جیکٹ یا گاڑیوں کی تیاری میں ملوث ہوگا یا کسی بھی قسم کے مقامی یا عالمی ذرائع سے فنڈنگ فراہم یا مہیا کرے گا اقلیتوں کے خلاف کسی قسم کی کارروائی میں ملوث ہوگا اس کے خلاف اس قانون کے تحت کارروائی عمل میں لائی جا سکے گی۔

یہ ترمیم دو سال کیلئے موثر رہے گی اور دو سال کے بعد از خود منسوخ ہوجائے گی۔ قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ نے بھی اس اکیسویں ترمیمی بل 2015 ء کو اتفاق رائے سے منظور کرلیا۔ قومی اسمبلی نے دہشت گردی کے خلاف آئین میں 21 ویں ترمیم اور پاکستان آرمی ایکٹ1952 میں ترمیم کے بل منگل کو متفقہ طور پر منظور کر لئے ۔اسمبلی کے 245ارکان نے بلوں کے حق میں ووٹ کا حق استعمال کیااور کسی نے مخالفت نہ کی جبکہ جمعیت علماء اسلام ف اور جماعت اسلامی کے ارکان قومی اسمبلی تحفظات کے باعث اجلاس سے غیرحاضر رہے۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں اس بل کی شق وار منظوری دی گئی ۔وفاقی وزیر قانون پرویز رشید نے 21 ویں آئینی ترمیم کا بل اسمبلی میں پڑھ کر سنایا جس کی تمام کلازز پر مرحلہ وار ووٹنگ کی گئی ۔نتائج کے مطابق آئینی یا آئین میں ترمیم کے بل کے حق میں 245 اراکین نے ووٹ دیا جبکہ مخالفت میں کوئی بھی ووٹ نہیں ڈالا گیا ۔وزیر قانون پرویز رشید نے آئین میں 21 ویں ترمیم اور آرمی ایکٹ1952 کے ترمیمی بل کے مندرجات اسمبلی میں پڑھ کر سنائے جس پر سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق اراکین کی رائے لیتے رہے۔

آئین میں 21 ویں ترمیم بل میں کہا گیا ہے کہ چونکہ غیر معمولی صورت حال اور حالات موجود ہیں جو پاکستان کے خلاف دہشت گردی ،جنگ کرنے یا بغاوت کرنے سے متعلق بعض جرائم کی فوری سماعت مقدمہ اور مذہب یا کسی فرقے کا نام استعمال کرنے والے کسی دہشت گرد یا دہشت گرد گروپ ،مسلح گروپ،دستے اور عسکری گروپ یا ان کے اراکین کی جانب سے پاکستان کی سلامتی کو خطرات لاحق کرنے والے افعال کی روک تھام کے لئے خصوصی اقدامات کے متقاضی ہیں۔

قومی اسمبلی میں پاکستان آرمی ایکٹ1952 میں ترمیم کرنے کے بل کی باضابطہ منظوری دی گئی ہے۔ایکٹ میں ترامیم کے مسودہ میں کہا گیا ہے کہ چونکہ غیر معمولی صورت حال اور حالات موجود ہیں جو پاکستان کے خلاف دہشت گردی،جنگ کرنے یا بغاوت کرنے سے متعلق بعض جرائم کے فوری سماعت مقدمہ اور کسی دہشت گرد یا دہشت گرد گروپ اور ایسے مسلح گروپوں ،دستوں اور عسکریتی گروپوں کے افراد کی جانب سے مذہب یا کسی فرقے کا نام استعمال کرکے پاکستان کی سلامتی کو خطرات لاحق کرنے والے افعال کی روک تھام کے لئے خصوصی اقدامات کے متقاضی ہیں اور چونکہ مذہب اور کسی فرقے کا نام استعمال کر کے غیر ملکی اور مقامی سرمایہ پر پلنے والے عناصر کے گروپوں بشمول مذہب یا کسی فرقے کا نام استعمال کرنے والے جنگجو افراد کی طرف سے ہتھیار اٹھانے اور بغاوت کا علم بلند کرنے سے پاکستان کی سالمیت کو سنگین اور غیر معمولی خطرات لاحق ہیں اور چونکہ یہ قرین مصلحت ہے کہ مذکورہ دہشت گردوں کے گروپوں بشمول مذہب اور کسی فرقے کا نام استعمال کرنے والے متحارب کسی بھی ایسے دہشت گردوں جنہیں مسلح افواج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مقابلے میں یا بصورت دیگر گرفتار کیا گیا ہو یا کیا جائے ،پرایکٹ ہذا کے تحت عدالت میں مقدمہ چلایا جائے اور چونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور،1973 کا آرٹیکل 245 مسلح افواج کو جنگ کے کسی بھی خطرے کا مقابلہ کرنے کی ذمہ داری سونپتا ہے لہذا بذریعہ ہذا حسب ذیل قانون وضع کیا جاتا ہے۔

یہ ایکٹ پاکستان آرمی ترمیمی ایکٹ2015 کے نام سے موسوم ہوگا۔یہ فی الفور نافذ العمل ہوگا۔اس ترمیمی ایکٹ کی تصریحات اس ایکٹ کے آغاز نفاذ کی تاریخ سے دو سال کی مدت کے لئے نافذالعمل رہیں گی اور مذکورہ مدت کے اختتام پرایکٹ ہذا کا حصہ نہیں رہیں گی اور تنسیخ شدہ منصور ہوں گی تاوقتیکہ پارلیمنٹ کے ہر ایوان کی جانب سے منظور کردہ قرار داد کے ذریعے ایکٹ ہذا کی مدت میں توسیع نہ کر دی جائے۔

پاکستان آرمی ایکٹ 1952 ،(نمبر39 ،بابت1952 ء)جس کا بعد ازایں مذکورہ ایکٹ کے طور پر حوالہ دیا گیا ہے۔ جس میں حسب ذیل نئی ذیلی شقات شامل کر دی گئی ہیں۔کوئی شخص جو مذہب یافرقہ کا نام استعمال کرنے والے کسی دہشت گرد گروپ یا تنظیم کا رکن ہو یا تعلق کا دعوی کرے یا کہ تعلق سے بہچانا جائے اور پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھائے یا جنگ کرے یا پاکستان کی مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملہ کرے یا پاکستان میں کسی شہری یا فوجی تنصیبات پر حملہ کرے یا تاوان کے لئے کسی شخص کو اغواء کرے یا کسی شخص کی موت یا اسے زخمی کرنے کا موجب بنے ،یا دہشت گردی کی کارروائیوں میں استعمال کئے جانے کے لئے دھماکہ خیز مواد ،آتشی ہتھیار ،آلات،اشیاء ،خود کش جیکٹس یا گاڑیاں رکھتا ہو،ذخیرہ کرے ،تیار کرے یا نقل و حمل کرے یا اس طرح کی غیر قانونی سرگرمیوں اور افعال کے لئے کسی غیر ملکی یا مقامی ذرائع سے رقم وصول کرے یا فراہم کرے یا کسی فعل کے ذریعے ریاست یا عوام کے کسی حصہ یا کسی فرقہ یا کسی مذہبی اقلیت کو دھمکائے یا پاکستان میں دہشت یا عدم تحظ پیدا کرے یا پاکستانی کے اندر یا باہر مذکورہ کسی بھی افعال کے ارتکاب کی کوشش کرے تو وہ ایکٹ ہذا کے تحت سزا کا مستوجب ہوگا۔

کوئی شخص جو مذہب یا کسی فرقہ کا نام استعمال کرنے والے کسی دہشت گرد گروہ یا تنظیم کا کارکن ہو یا سے تعلق کا دعوی کرے یا کے تعلق سے پہچانا جائے اور پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھائے یا جنگ کرے تو تحفظ پاکستان ایکٹ ،2014ء (نمبر 10بابت،2014 ء) کے جدول میں نمبر شمار ،(ii)،(v)،(vi)،(iiv)،(viii)،(ix)،(x) ،(xi) ،(xii)،(xv)،(xvii) اور (xx) میں مذکورجرم کا مرتکب ہو گا۔مزید شرط یہ ہے کہ کوئی شخص جس پر ذیلی شق(iii) یا ذیلی شق(iv) کے تحت آنے والے کسی بھی جرم کے ارتکاب میں اعانت کرنے،مدد دینے یا سازش کرنے کا الزام ہو اس پر ایکٹ ہذا کے تحت مقدمہ چلایا جائیگا خواہ اس نے مذکورہ جرم کا ارتکاب کہیں بھی کیا ہو۔

مگر یہ مزید شرط یہ ہے کہ کوئی شخص جس پر ذیلی شق(iii) یا ذیلی شق(iv) کے تحت آنے والے کسی بھی جرم کے ارتکاب کا الزام ہو ،پر وفاقی حکومت کی پیشگی اجازت کے بغیر مقدمہ نہیں چلایا جائیگا۔ایکٹ ہذا میں لفظ”فرقہ“ مذہب کا کوئی فرقہ ہے اور اس میں فی الوقت نافذ العمل کسی قانون کے تحت رجسٹرشدہ کوئی سیاسی جماعت شامل نہیں۔(2 )ذیلی دفعہ(3) کے بعد حسب ذیلی نئی ذیلی دفعات کا اضافہ کر دیا جائیگا یعنی (4) وفاقی حکومت کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ کسی شخص کے ضمن میں ،جس پر وذیلی دفعہ(1)کی شق(د)کی ذیلی شق(iii) یا ذیلی شق(iv) کے تحت آنے والے کسی بھی جرم کے ارتکاب کا الزام ہو، کے خلاف کسی عدالت میں زیرالتواء کسی بھی کارروائیوں کوایکٹ ہذا کے تحت کسی عدالت میں منتقل کر سکے۔

(5)ذیلی دفعہ(4) کے تحت منتقل کردہ کوئی بھی کارروائیاں ایکٹ ہذا کے تحت شروع کی گئی متصور ہوں گی ۔(6) جہاں ذیلی دفعہ (4) کے تحت کوئی مقدمہ منتقل کیا گیا ہو تو شہادت کا ریکارڈ کرنا ضروری نہیں ہوگا جو پہلے ہی ریکارڈ کی جا چکی ہو“۔مذکورہ ایکٹ کی دفعہ60 کی شق(ک) میں،آخر میں آنے والے لفظ ”قانون“ کے بعد الفاظ”اور فی الوقت نافذ العمل کوئی بھی دیگر قانون“ کااضافہ کر دیا جائیگا۔

بل میں اغراض وجوہ بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایسی غیر معمولی صورت حال اور حالات موجود ہیں جو پاکستان کے خلاف دہشت گردی جنگ شروع کرنے یا بغاوت کرنے سے متعلق بعض جرائم کی فوری سماعت اور مذہب یا کسی فرقے کا نام استعمال کرتے ہوئے کسی دہشت گرد گروہ اور ایسے مسلح گروہوں،دستوں اور عسکریتی گروپوں کی جانب سے پاکستان کی سلامتی کے لئے خطرات کا باعث بننے والے افعال کی روک تھام کے لئے خصوصی اقدامات کے متقاضی ہیں۔

مذہب اور کسی فرقے کا نام استعمال کرنے والے غیر ملکی اور مقامی فنڈ پر پلنے والے عناصر کے گروپوں بشمول مذہب یا کسی فرقے کا نام استعمال کرنے والے جنگجو افراد کی جانب سے ہتھیار اٹھانے اور بغاوت کا علم بند کرنے سے پاکستان کی سالمیت کو سنگین اور شدید خطرات لاحق ہیں اور ان عناصر سے قانون کے تحت سختی سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔