ڈاکٹر طاہرالقادری نے 14 نکات پر مشتمل دہشتگردی کے خلاف اپنا پلان پیش کر دیا،فوج کے بجٹ میں اضافہ،مدرسوں کیلئے ایک نصاب ، بیرونی فنڈنگ پر پابندی لگائی جائے ،پارلیمنٹ دہشتگردی کی جنگ کو پاکستان کی جنگ قرار دے،ڈرون حملوں، دہشتگردی اور متاثرین آپریشن کی بحالی کیلئے ادارہ قائم کیا جائے،دہشتگردوں کے حق میں بیان دینے کی سزاعمر قید مقرر کی جائے،فوجی عدالتیں قائم کی جائیں جو 7دن کے اندر فیصلے دیں،نفرت اور انتہا پسندی کے لٹریچر کو تلف اور اشاعت پر پابندی لگائی جائے، نصاب کیلئے علماء بورڈ تشکیل دیا جائے ،”وار آن ٹیرر“کا اعلان کیا جائے ،پیس سنٹر قائم کیے جائیں، 21دسمبر کو ملک گیر احتجاجی مظاہرے ہونگے ،پریس کانفرنس سے خطاب

اتوار 21 دسمبر 2014 09:47

ہیوسٹن/ اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔21دسمبر۔2014ء )پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے دہشتگردی کے خاتمہ کے حوالے سے14نکاتی پلان کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشتگرد اور ان کے سرپرست پاکستان کا مسئلہ نمبر ایک ہیں، دہشتگرد گروپس اور ان کے حمائتیوں کے مکمل خاتمہ کیلئے (1)وار آن ٹیرر کا اعلان کیا جائے(2)پارلیمنٹ دہشتگردی کی جنگ کو پاکستان کی جنگ قرار دینے کی متفقہ قرارداد پاس کرے (3)دہشتگردی کے خاتمہ کیلئے بلاتاخیر ابہام سے پاک قانون سازی کی جائے، دہشتگردوں سے تعاون کرنے والوں، تعلق رکھنے والوں اور ان کی حمایت میں بیانات دینے والوں کو برابر کا مجرم سمجھتے ہوئے ان کیلئے عمر قید کی سزا مقرر کی جائے(4)دہشتگردوں کو جلد سے جلد کیفرکردار تک پہنچانے کیلئے فوجی عدالتیں قائم کی جائیں، ایک ہفتہ میں فیصلہ اور ایک ہفتہ اپیل کیلئے مقرر کیا جائے(5)مدراس کے نظام اور نصاب میں اصلاحات کو یقینی بنایا جائے، نصاب یکساں ہونا چاہیے، نصاب سازی کیلئے جید علماء پر مشتمل بورڈ تشکیل دیا جائے، منظور شدہ نصاب کے علاوہ کچھ بھی پڑھنے پڑھانے پر قانوناً پابندی عائد کی جائے(6) دینی مدارس، جماعتوں، تنظیموں اور شخصیات کو ملنے والی بیرونی فنڈنگ پر پابندی عائد کی جائے(7)پیس ایجوکیشن سینٹر قائم کیے جائیں جو انتہا پسندانہ رویوں کی روک تھام کیلئے آگاہی مہم چلائیں تاکہ دہشتگر گروپس ان کی مجبوریاں نہ خرید سکیں اور انہیں بلیک میل نہ کر سکیں(8)نفرت، فرقہ واریت، انتہا پسندی اور دہشتگردی کے فروغ کا سبب بننے والے لٹریچر پر پابندی اور اسے بلاتاخیر نذرآتش کیا جائے جس طرح نارکوٹکس والے منشیات کے ذخیرے پکڑنے کے بعد انہیں نذر آتش کر دیتے ہیں(9)دہشتگردی کے خاتمہ کیلئے کام کرنے والی خصوصی عدالتیں، ادارے، نیم عسکری فورسز اور ایجنسیاں براہ راست فوج کے ماتحت ہونی چاہیئں(10)دہشتگردی کے خاتمہ اور ” وار آن ٹیرر“ ڈیکلیئر کر کے فوج کے بجٹ میں اضافہ کیا جائے(11)ڈرون حملوں، متاثرین آپریشن اور دہشتگردی کے مکمل علاج اور معاشی سماجی بحالی کیلئے وفاق کے ماتحت خصوصی ادارہ تشکیل دیا جائے جو ضرورت مند متاثرین کی مستقل کفالت کا ذمہ دار ہو(12)آئین نے اپنے شہری کو تعلیم، صحت، روزگار، انصاف، تحفظ کی فراہمی کی جو گارنٹیاں دی ہیں ان پر عملدرآمد کا آغاز کیا جائے کیونکہ ناانصافی اور محرومی دہشتگردی اور انتہا پسندی کو فروغ دیتی ہے(13)کالعدم تنظیموں کے نام پر نہیں کام پر عملاً پابندی لگائی جائے ان کے دفاتر سیل اور جائیدادیں ضبط کی جائیں انہیں عبرت کا نشان بنادیا جائے تاکہ کوئی کسی بے گناہ کی جان لینے کی جرأت نہ کر سکے ۔

(جاری ہے)

(14)نصاف میں امن اور انتہا پسندی کے خلاف مضامین شامل کیے جائیں۔انہوں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا دہشتگردی کی 55 عدالتوں میں 5سال سے 2025 وہ کیسز زیر التواء ہیں جن کے فیصلے 7دن کے اندر ہونا قانونی تقاضا تھا، پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں سب سے زیادہ دہشتگردی کے کیسز التواء کا شکار ہیں، دیر آید درست آید چیف جسٹس آف پاکستان نے دہشتگردی کے حوالے سے سپریم کورٹ کے سینئر ججز کا ہنگامی اجلاس بلایا ،انہوں نے کہا کہ تاحال سانحہ پشاور کے بعد صرف آرمی چیف دردمندی کے ساتھ بھاگ دوڑ کرتے اور ٹھوس فیصلے کرتے نظرآرہے ہیں، سانحہ پشاور کے دل دہلا دینے والے واقعہ کے بعد ابھی تک سیاسی لیڈر شپ کی طرف سے وہ فیصلے اور اقدامات نظر نہیں آرہے جن کی قوم توقع کررہی ہے، پوری قوم ہل کر رہ گئی پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس کیوں نہیں بلایا گیا؟ دھرنے کے دنوں میں طویل ترین اجلاس منعقد ہو سکتا ہے تو اب کیوں نہیں؟یہ اجلاس تو 16دسمبر کی شام کو ہی لائحہ عمل طے کرنے کیلئے بیٹھ جانا چاہیے تھا،انہوں نے کہا رسماً ہی سہی اس ربڑ سٹمپ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر دہشتگردی کی مذمت کی جاتی تو دنیا کو اس بار ہمارے سنجیدہ ہونے کا کچھ نہ کچھ ضرور تاثر ملتا آج بھی اگر ٹھوس اقدامات نہ اٹھائے گئے تو سانحہ پشاور اور سانحہ ماڈل ٹاؤن جیسے سانحات رونما ہوتے رہیں گے اور عوام میں اشتعال اور نفرت بڑھتی رہی گی جس کا فائدہ دہشتگرد اٹھاتے رہیں گے،انہوں نے کہا کہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ 10سال میں 55ہزار اموات ہوئیں مگر پارلیمنٹ، عدلیہ اور انتظامیہ اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہیں، انہوں نے کہا کہ یہ موقع سیاست کرنے کا نہیں ہے مگر سچ بولنا اور حقائق پر بات کرنا سیاست نہیں، انہوں نے کہا کہ جب 18اکتوبر 2007 کے دن بینظیر بھٹو کے استقبالیہ جلوس پر حملہ ہو اور 139لوگ شہید ہوئے تب آنکھیں کیوں نہیں کھلیں؟ 21اگست 2008 کے دن واہ فیکٹری میں 2دھماکوں میں 64لوگ شہید ہوئے، جی ایچ کیو پر حملہ ہوا، ہماری حساس فوجی تنصیاب پر حملے ہوئے ،واہگہ بارڈر پر حال ہی میں حملہ ہوا، سیاسی لیڈر شپ کی آنکھیں کیوں نہیں کھلیں؟یکم جنوری 2010 کو کوئٹہ کے ایک دھماکے میں 101 شہید ہو گئے، اسی سال 12مارچ کے دن لاہور کے دو دھماکوں میں 57بے گناہ شہید ہوئے سیاسی لیڈر شپ کی آنکھیں کیوں نہیں کھلیں؟ 10 جنوری 2013 ء کے دن کوئٹہ شیعہ کمیونٹی کے علاقہ میں 2 خودکش دھماکوں میں 92افراد شہید ہوئے ذمہ داروں کی آنکھیں کیوں نہیں کھلیں؟ پھر 16فروری 2013 کے دن ہزارہ ٹاؤن مارکیٹ میں دھماکہ ہوا 89 افراد شہید ہوئے کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی، سب کان کھول کر سن لیں دہشتگردوں کے ان دھماکوں میں کوئی طبقہ، کوئی مسلک، کوئی سرکاری، غیر سرکاری تنظیم، جماعت ایسی نہیں جس کے لوگ دہشتگردی کا نشانہ نہ بنیں ہوں، اس لیے اب اس سوچ سے باہر نکل آیا جائے کہ یہ جنگ ہماری نہیں غیروں کی جنگ ہے ،انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کی جنگ کے خلاف لڑنا صرف فوج کی تنہا ذمہ داری نہیں ہے،اس جنگ کو جیتنے کیلئے پاکستان کے ہر شہری کو ، ہر ادارے کو فوج کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہو گا، دنیا کے بہت سارے ملکوں نے حال ہی میں دہشتگردوں کو شکست دی ہے اور یہ جنگ جیتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ قومی اتحاد اور یکجہتی کی اس فضا کو اگر حکومت کی طرف سے سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی تو قوم ان کے ساتھ بھی دہشتگردوں والا سلوک کرے گی، یہ ہماری جنگ ہے اور یہ ہی وقت ہے تمام فیصلے کرنے کا اگر اب دیر ہوئی تو پھر بہت دیر ہو جائے گی، انہوں نے کہا کہ دہشتگرد آئین ، قانون، اخلاقیات، انسانیت کو روندتے ہوئے آتے ہیں، خون کی ہولی کھیل کر چلے جاتے ہیں اور جو پکڑے جاتے ہیں ہم قانون، انسانی حقوق، عدالتی نظام، قانون شہادت کے گھیرے میں آ جاتے ہیں، وکلاء اور سول سوسائٹی سے گزارش ہے کہ وہ دہشتگردی کے مسئلے پر قوم کو قانون موشگافیوں میں مت الجھائیں دہشتگردوں کو سزائیں دینے کیلئے جہاں قانون رکاوٹ ہے فوراً آرڈیننس جاری کر کے رکاوٹیں دور کی جائیں اور دہشتگردوں کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے، ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف جو واضح اور دو ٹوک موقف پاکستان عوامی تحریک کا رہا ہے کسی اور کا نہیں رہا، ہمارے کارکنوں نے قومی مفادات کیلئے قربانیاں دیں آئندہ کیلئے بھی تیار ہیں،21دسمبر کوپاکستان عوامی تحریک ملک بھر میں دہشتگردی کے خلاف احتجاجی ریلیاں نکال رہی ہے، پوری قوم سے اپیل ہے کہ وہ ان ریلیوں میں کثیر تعداد میں شریک ہو کر دہشتگردوں اور پوری دنیا کو پیغام دیں کہ ہم ڈرے نہیں ہمارے حوصلے پہلے سے زیادہ مضبوط اور بلند ہیں،پاکستان عوامی تحریک دہشتگردی کیخلاف نظریاتی، فکری اور عملی سطح پر عوامی جدوجہد جاری رکھے گی، ملک بھر میں سیمینارز ،کانفرنسز کے ذریعے دہشتگردی کے خلاف آگہی مہم چلائی جائے گی اور پوری قوم کو دہشتگردی کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار میں تبدیل کیا جائیگا۔