سپریم کورٹ نے سمندر پار پاکستانیوں کو ایئرپورٹ پر درپیش مسائل اور ان کے حل بارے سول ایوی ایشن حکام اور او پی ایف سمیت ذمہ داران سے جواب طلب کرلیا،بتایا جائے جس چیئرمین سی اے اے نے کھلی عدالت میں جھوٹ بولا اس کیخلاف کیا انضباطی کارروائی کی گئی ہے؟حکومت سے جواب طلب، عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ کرنے والوں کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے گی،عدالتی حکم،پشاور میں جو ہوا ذمہ داروں کو دو دو پھانسیاں لگنی چاہئیں، جو لوگ ذمہ داری محسوس کرتے ہیں وہ خود ہی مستعفی ہوجاتے ہیں مگر ہمارے ہاں یہ روایت نہیں ، جسٹس جواد،سپریم کورٹ ان اداروں کو چابک مار کر چلا رہی ہے ایسا کب تک ہوگا؟ ،جسٹس دوست محمد

جمعہ 19 دسمبر 2014 06:45

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔19دسمبر۔2014ء) سپریم کورٹ نے سمندر پار پاکستانیوں کو ایئرپورٹ پر درپیش مسائل اور ان کے حل بارے سول ایوی ایشن حکام اور او پی ایف سمیت ذمہ داران سے جواب طلب کرلیا جبکہ وفاقی حکومت کو حکم دیا ہے کہ عدالت کو بتایا جائے کہ جس چیئرمین سول ایوی ایشن اتھارٹی نے کھلی عدالت میں جھوٹ بولا اور وہ موقع پر ثابت بھی ہوگیا اس کیخلاف کیا انضباطی کارروائی کی گئی ہے؟ ایف آئی اے‘ سول ایوی ایشن حکام‘ او پی ایف اور دیگر ادارے بیرون ملک سے آنے والے پاکستانیوں کو کس حد تک آسانیاں مہیا کررہے ہیں‘ اردو میں ہدایت نامہ کیوں جاری نہیں کیا گیا‘ عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ کرنے والوں کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے گی۔

یہ حکم جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں جسٹس دوست محمد پر مشتمل دو رکنی بنچ نے جمعرات کے روز جاری کیا جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پرسوں پشاور میں جو کچھ ہوا اس کے ذمہ داروں کو دو دو پھانسیاں لگنی چاہئیں۔

(جاری ہے)

قانون تو محض کاغذ کا ٹکڑا ہے خود سے تو عمل نہیں کراسکتا۔ اردو نہ سمجھنے والے پاکستانیوں کو حکام کی جانب سے انگریزی‘ عربی اور فرانسیسی زبان میں ہدایت نامہ تھمادیا جاتا ہے۔

چیئرمین سی اے اے کہتے ہیں کہ فارم کی ضرورت نہیں حالانکہ ان کی ویب سائٹ پر یہ فارم پر کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت خود بتائے کہ قوانین پر عملدرآمد کیوں نہیں کیا جاتا۔ جو لوگ ذمہ داری محسوس کرتے ہیں وہ خود ہی مستعفی ہوجاتے ہیں مگر ہمارے ہاں یہ روایت نہیں ، چاہے کچھ بھی ہوجائے کوئی استعفیٰ نہیں دیتا۔ حساس دل رکھنے والوں کی ضرورت ہے۔

محض قانون بنانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ ججز خود بھی خود احتسابی کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ معاشرے کفر سے چل سکتے ہیں ناانصافی سے نہیں۔ نئے ایئرپورٹ کی تعمیر اگلے دو سال تو کیا دس سال میں بھی مکمل نہیں ہوگی۔ کس کس ادارے کو درست کریں۔ ایئرپورٹس پر بابا آدم کے زمانے کی مشینیں کام کررہی ہیں۔ 16 ارب ڈالر بھجوانے والے تارکین وطن کو کوئی سہولت میسر نہیں ہے۔

جان جوکھوں میں ڈال کر بیرون ملک غیرقانونی طور پر جانے والے سمندر میں ڈوب جاتے ہیں یا پھر کنٹینرز میں مر جاتے ہیں۔ پاکستان میں حالات اچھے ہوتے تو تارکین وطن اپنے ملک میں آکر رہتے اور روزی کماتے۔ 80 سماعتوں سے داستان غم سنارہے ہیں کوئی اس کا مداوا کرنے کو تیار نہیں۔ اکا دکا واقعات ہر ملک میں ہوتے ہیں پاکستان میں بھی ہوجاتے ہیں مگر ان واقعات کو روکنے کیلئے ہمیں ان کی بنیاد کو سمجھنا ہوگا۔

پالیسی ہم نے نہیں حکومت نے بنانی ہے جبکہ جسٹس دوست محمد خان نے ریمارکس دئیے کہ نئے ایئرپورٹ کی تعمیر کیلئے مقرر کردہ ایک کنسلٹنٹ ہومیو پیتھک ڈاکٹر ہے۔ تمام ادارے کام نہیں کررہے۔ سپریم کورٹ ان اداروں کو چابک مار کر چلا رہی ہے ایسا کب تک ہوگا؟ اداروں کی ناکامی سے اچھی بھلی ریاستیں بھی دفن ہوجاتی ہیں۔ ماضی میں بھی ایسا ہوتا آیا ہے۔

وفاقی حکومت کو مربوط پالیسی وضع کرنا ہوگی۔ اتنے بڑے بڑے ادارے ایئرپورٹس پر کام کررہے ہیں مگر حالات یہ ہیں کہ بیرون ملک برسوں بعد کچھ کماکر آنے والا پاکستانی اپنے ہی ملک میں اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں ایئرپورٹ سے نکلتے ہی لٹ جاتا ہے۔ کیا پاکستانی ملک میں واپس آنا چھوڑ دیں۔ زمینی حقائق دیکھ کر ہی فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ جہاں کے ایگزیکٹو کو ملکی علاقوں بارے معلومات تک نہ ہوں وہ کیا پالیسی وضع کرسکتا ہے۔

اگر کام کرنے والے لوگ حساس دل کیساتھ ایک ماہ تک کام کریں تو تمامتر مشکلات اور مسائل کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت مسائل کے حل کیلئے موثر قانون سازی کی ضرورت ہے۔ دوران سماعت سول ایوی ایشن اتھارٹی کے او ایس ڈی بنائے گئے افسر آصف نے بتایا کہ او پی ایف کی رپورٹ صرف دکھاوا ہے۔ حالات یہ ہیں کہ سامان اٹھانے والی گاڑیاں تک موجود نہیں ۔

ایئرپورٹ پر پندرہ ایجنسیاں جن میں ایف آئی اے‘ سی آئی اے‘ او پی ایف و دیگر ادارے کام کررہے ہیں‘ نے اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا رکھی ہے اور کوئی بھی تارکین وطن کے مسائل کے حل کیلئے مخلص نہیں۔ جھوٹ بولنے والے چیئرمین کیخلاف کوئی انضباطی اور محکمہ کارروائی نہیں کی گئی اور یہی پوزیشن دیگر افسران کے بارے میں بھی ہے۔ اداروں نے اپنے اپنے طور پر رپورٹس جمع کروائی ہیں مگر عدالت نے ان تمام رپورٹس کو مسترد کردیا اور کہاکہ دوبارہ سے حقیقت پسندانہ رپورٹس بناکر پیش کی جائیں۔

جسٹس جواد کا کہنا تھا کہ اس عدالت میں ہم 16 ججز ہیں ہم سارے مل کر بھی اس مسئلے کو حل نہیں کرسکتے۔ بعدازاں عدالت نے سماعت 12جنوری نے شروع ہونے والے ہفتے تک ملتوی کردی اور مذکورہ بالا حکم جاری کردیا۔