پشاور ، 7دہشتگروں کے حملے میں 132بچے اور عملہ کے 9اہلکار شہید ، 118بچے اور عملہ کے 3ارکان زخمی ہوئے ، ڈی جی آئی ایس پی آر، دہشتگردوں کو کنٹرول کرنیوالوں کے بارے میں اہم اطلاعات مل گئی ہیں، آنے والے دنوں میں کارروائی جاری رہے گی، دہشتگردوں نے کسی کو یرغمال نہیں بنایا بلکہ زیادہ سے زیادہ بچوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی، واقعہ پوری قوم کو جگانے کیلئے کافی ہے،آرمی چیف اور پوری فوج کی طرف سے شہداء کے لواحقین سے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتا ہوں،دہشتگردوں کے پاس کئی دنوں کا اسلحہ اور راشن بھی موجود تھا،ضرب عضب دہشتگردوں کے خلاف حتمی آپریشن ہے، فوج کے ساتھ حکومت اور عدلیہ کو بھی بہت کچھ کرنا ہے ، میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ کی میڈیا کو بریفنگ

بدھ 17 دسمبر 2014 08:38

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔17دسمبر۔2014ء)پاک فوج کے محکمہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کہا ہے کہ پشاور میں آرمی پبلک سکول پر 7دہشتگردوں کے حملے میں 132بچے اور عملہ کے 9اہلکار شہید ہوئے اور 118بچے اور عملہ کے 3ارکان زخمی ہوئے جبکہ آپریشن کے دوران2افسران اور7جوان زخمی ہوئے،دہشتگردوں کو کنٹرول کرنے والوں کے بارے میں اہم اطلاعات مل گئی ہیں جس پر آنے والے دنوں میں کارروائی جاری رہے گی،ان دہشتگردوں نے کسی کو یرغمال نہیں بنایا بلکہ زیادہ سے زیادہ بچوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی،یہ واقعہ پوری قوم کو جگانے کیلئے کافی ہے،ضرب عضب دہشتگردوں کے خلاف حتمی آپریشن ہے،جس میں فوج کے ساتھ ساتھ حکومت اور عدلیہ کو بھی بہت کچھ کرنا ہے جبکہ آرمی چیف اس عزم کا اظہار کرچکے ہیں کہ دہشتگردوں کے آخری ہمدرد اور خیرخواہ کی گرفت تک یہ آپریشن جاری رہے گا۔

(جاری ہے)

منگل کو آرمی پبلک سکول میں دہشتگردوں کے خلاف فوجی آپریشن کے خاتمے کے بعد میڈیا کو تفصیلات بتاتے ہوئے میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کہا کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے کہ سفاک درندوں نے جو نہ تو انسان ہیں نہ مسلمان اور نہ ہی پاکستانی بلکہ وہ انسان دشمن،پاکستان دشمن اور اسلام دشمن ہیں،انہوں نے سفاکانہ طریقے سے بچوں کو بے دردی سے جس طرح مارا وہ پوری قوم کیلئے بڑا المیہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ دہشتگرد سکول کی پچھلی طرف سے آئے اور وہ سب سے پہلے آڈیٹوریم میں داخل ہوئے جہاں بچوں کے امتحانات ہورہے تھے،انہوں نے آتے ہی بے دریغ فائرنگ شروع کردی اور دو دروازوں سے نکلنے والے بچوں کو مسلسل نشانہ بنایا۔فوج کی کوئیک ری ایکشن فورس 10,15منٹ میں پہنچ چکی تھی،جس نے انہیں اسی آڈیٹوریم میں واپس دھکیلا جہاں سے وہ نکل کر قریب ہی ایڈمن بلاک میں جانا چاہتے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ مجموعی طور پر سکول میں 1099بچے اور عملہ کے ارکان موجود تھے جن میں سے960بچوں اور عملہ کو بچایا گیا،132بچے،عملہ کے 9ارکان شہید جبکہ مجموعی طور پر121افراد زخمی ہوئے۔انہوں نے بتایا کہ 1دہشتگرد اس آڈیٹوریم کے دروازے پر جبکہ باقی ایڈمن بلاک میں مارے گئے،3کو کھڑکیوں اور تین کو اندر جاکر ٹارگٹ کیا گیا،تاہم چونکہ ان تمام سات دہشتگردوں نے خودکش جیکٹس پہن رکھی تھیں اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ پہلے انہوں نے خودکش حملہ کیا یا فائرنگ سے ہی ان کی ہلاکت ہوئی،ان دہشتگردوں نے 7جوانوں کو زخمی کیا جن میں سے دو افسر شدید زخمی ہیں،یہ تمام لوگ یرغمالیوں کو بچانے کی کوشش کر رہے تھے اور اب سکول مکمل طور پر انتظامیہ کے حوالے کردیا ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ جہاں سے آپریشن کنٹرول ہورہا تھا ہم اس گروپ کو پہچان چکے ہیں اور دو چار روز میں آپ کو اس کا اندازہ ہوجائے گا۔آرمی چیف فوری طور پر کوئٹہ کا دورہ مختصر کرکے یہاں پہنچے اور خود ایس ایس جی کو حرکت دی،دہشتگرد بہت زیادہ نقصان کرنا چاہتے تھے تاہم انہوں نے کسی کو یرغمال نہیں بنایا بلکہ وحشی کی طرح بچوں کو براہ راست نشانہ بنایا،میں آرمی چیف اور پوری فوج کی طرف سے شہیدوں کے خاندانوں سے گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتا ہوں اس کیلئے ہمارے پاس الفاظ نہیں لیکن ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سالہا سال سے ہم قربانیاں دے رہے ہیں اور دہشتگرد ہمارا عزم دیکھ چکے ہیں۔

پریڈ لین کے واقعہ میں بھی درندہ صفت دہشتگردوں نے بچوں کو نشانہ بنایا تھا۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان لوگوں نے منصوبہ بندی کی ہوگی اور ہم عوام سمیت تمام اداروں سے بھی یہ کہتے رہتے ہیں کہ وہ نظر رکھیں اور اطلاع دیں،مگر یہ لوگ جس طرف سے آئے ہیں وہاں فوج یا پولیس موجود نہیں تھی۔ایک اور سوال کے جواب میں میجر جنرل عاصم باجوہ نے کہا کہ دہشتگردوں کے پاس کئی دنوں کا اسلحہ اور راشن بھی موجود تھا،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ارادے خطرناک تھے مگر ان لوگوں کا ہدف کیا تھا اس کے بارے میں تفصیلات آنے والے وقت میں ہی معلوم ہوسکیں گی۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آپریشن ضرب عضب کے بعد سے خطرات کا علم تھا لیکن خاص طور پر اس سکول کے بارے میں کوئی دھمکی نہیں ملی تھی،مگر یہ بات واضح ہے کہ دہشتگردوں کی کوشش ہوگی کہ وہ جہاں بھی ہوں آسان ہدف تلاش کریں،دہشتگردوں کی قومیت کے بارے میں سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ اطلاعات ملی ہیں کہ کچھ دہشتگرد عربی بول رہے تھے اور کچھ چیزیں ہماری مانیٹرنگ میں آگئی ہیں مگر اس کے بارے میں فی الحال نہیں بتایا جاسکتا۔

ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ ضرب عضب حتمی آپریشن ہے اور یہ صرف فوج کا کام نہیں بلکہ عدلیہ اور حکومت سمیت سب نے اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے،اب یہ دیکھنا ہوگا کہ ان اقدامات میں کتنی تیزی آتی ہے کیونکہ یہ واقعہ پوری قوم کو جگانے کیلئے کافی ہے۔افغانستان میں دہشتگردوں کے تعاقب کے بارے میں سوال پر عسکری ترجمان نے کہا کہ افغان حکومت نے بھی دہشتگردوں کے خاتمے کا عزم ظاہر کیا ہے،حکومت اور فوج کی سطح پربات ہوئی ہے اور ہم نے یہ عزم کر رکھا ہے کہ یہ لوگ اب محفوظ نہیں رہیں گے،ان کے جتنے ہمدرد،معاون اور خیرخواہ ہیں ہم ان کا تعاقب کر رہے ہیں،آرمی چیف بھی واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ آخری ہمدرد کی گرفت تک آپریشن جاری رہے گا،یہ آپریشن روزانہ کی بنیاد پر ملک بھر میں جاری ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں ڈی جی نے کہا کہ آج تمام مذہبی وسیاسی جماعتوں نے اس واقعہ کی مذمت کی ہے کوئی ایک جماعت بھی ایسی نہیں جس نے مذمت نہ کی ہو اور میں امید بھی نہیں کرسکتا کہ کوئی شہری یا کوئی جماعت ایسے دہشتگردوں کو اپنے بچے قرار دے گی جو معصوم بچوں کو نشانہ بناتے ہیں،تاہم اگر ایسا ہے تو پھر قوم کو فیصلہ کرنا ہوگا۔ایک گاڑی جلنے کے واقعہ کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ دہشتگردوں کی گاڑی تھی اور ہوسکتا ہے کہ انہوں نے خود کوئی فیوز لگایا ہو جس سے وہ جل گئی ہو