مقبوضہ کشمیر، ڈھونگ انتخابات کے چوتھے مرحلے پر وادی بھر میں مکمل ہڑتال، انتخابی عمل کا بائیکاٹ کیا گیا،بعض مقامات پر الیکشن کیخلاف مظاہر ،حریت قیادت کو ان کے گھروں میں نظر بند رکھا گیا ،سکیورٹی کے سخت ترین انتظامات کئے گئے

پیر 15 دسمبر 2014 07:49

سرینگر(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔15دسمبر۔2014ء) مقبوضہ کشمیر میں ریاستی اسمبلی کے ڈھونگ انتخابات کے چوتھے مرحلے پر وادی بھر میں حریت کانفرنس کی اپیل پر مکمل ہڑتال رہی اور انتخابی عمل کا بائیکاٹ کیا گیا ،بعض مقامات پر الیکشن کیخلاف مظاہر ے بھی کئے گئے ،حریت قیادت کو ان کے گھروں میں نظر بند رکھا گیا ۔تفصیلات کے مطابق اتوار کو دارالحکومت سرینگر کے علاوہ تین علاقوں میں 18 نشستوں کے لیے ووٹ ڈالے گئے ۔

سرینگر کو پولنگ کے حوالے سے حساس ترین ضلع قرار دیا گیا اور یہاں سکیورٹی کے اضافی انتظامات کیے گئے تھے۔گذشتہ تین مرحلوں کی طرح اتوار کو بھی وادی بھر میں الیکشن مخالف ہڑتال رہی تمام کاروباری و تجارتی مراکز بند رہے ،سڑکوں پر ٹریفک معطل رہی،جس سے کاروبار زندگی مفلوج ہوکر رہ گیا ، بعض مقامات پر لوگوں نے الیکشن مخالف مظاہرے کئے اور بھارت مخالف اور آزادی کے حق میں نعرے بازی کی گئی ۔

(جاری ہے)

ہڑتال و مظاہروں کی اپیل حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں نے دے رکھی تھی ،حریت پسند قیادت کو اس موقع پر انکے گھروں میں نظر بند کردیا گیا ۔کل جماعتی حریت کانفرنس کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ بھارت گزشتہ ٰ67برسوں سے نام نہاد الیکشن کی آڑ میں فوجی آپریشنوں کے ذریعے بھارت نواز سیاست دانوں کو غلام کشمیریوں کے سروں پر مسلط کرتا رہا مگر جموں کشمیر کے عوام نے کبھی بھی بھارتی جمہوریت پر اعتماد نہیں کیا انہوں نے کہا کہ جموں کشمیر کے عوام کے ضمیر خریدنے کے لیے پورے جموں کشمیر کو کرپشن کے سمندر میں ڈبو دیا گیا ہے نوٹ کے بدلے ووٹ اب بھارت کی مسخ شدہ جمہوریت کی شہ سرخی ہے ووٹ خریدنے کے لئے سر بازار چکاؤ دھکاؤ ہورہا ہے ۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ پرامن سیاسی سرگرمیوں پر قدغنیں عائد کرنے سے یا گرفتاریاں یا نظر بندیاں ہم کو اپنی مبنی حق جدوجہد سے نہ تو دستبردار کرنے میں معاونت ثابت ہوسکتی ہیں اور نہ ہی نام نہاد انتخابی ڈراموں سے تنازع کشمیر کی ہیت اور حیثیت تبدیل کیا جاسکتا ہے ۔ بھارتی حکومت مسئلہ کشمیر سے جڑے سیاسی تاریخی حقائق کا ادرا کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی عوام کی خواہشات اور امنگوں کے مطابق حل کرنے کیلئے نتیجہ خیز کوشش کرنی چاہیے کیونکہ مسئلہ کشمیر کا ایک منصفانہ حل ہی اس پورے خطے کے کروڑوں عوام کے مستقبل کی ضمانت فراہم کرسکتا ہے۔

دریں اثناء ریاستی حکام کا کہنا ہے کہ پولنگ اپنے مقررہ وقت صبح آٹھ بجے شروع ہوئی اور دعوی کیا ہے کہ انتخابات کے دوران جموں و کشمیر میں ووٹنگ کی شرح ماضی کے مقابلے میں کافی بہتر رہی ہے۔ اتوار کو جن 18 نشستوں کے لیے پولنگ ہوئی ہے ان میں حکمراں پارٹی نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے لیے بہت کچھ داوٴ پر لگا ہے۔ریاست میں 25 نومبر اور دو اور نو دسمبر کو الیکشن کے ابتدائی تین مراحل میں ریکارڈ ووٹ ڈالے گئے اور ووٹنگ کی شرح بالترتیب 71، 71 اور 58 فیصد رہی۔

مرکز میں بر سر اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کشمیر میں بھی اقتدار میں آنے کے لیے ضروری 44 نشستوں کو حاصل کرنے کے لیے سرگرمی سے انتخابی مہم چلا رہی ہے ۔کشمیر کی ریاستی اسمبلی کی کل 87 نشستیں ہیں اور یہاں چوتھے اور پانچویں مرحلے میں 14 اور 20 دسمبر کو ووٹ ڈالے جائیں گے جبکہ ووٹوں کی گنتی 23 دسمبر کو ہوگی۔بی جے پی نے منصوبہ بنایا ہے کہ سرینگر کے جلسے میں کم از کم ایک لاکھ لوگ آئیں اور اس کے لیے مقامی رہنماوٴں کو ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔

کشمیر میں اسمبلی کی کل 87 نشستیں ہیں اور پہلے دو مرحلوں میں ریکارڈ ووٹ ڈالے گئے تھے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انتخابی مہم کے دوران بی جے پی نے آرٹیکل 370 اور افسپا (اے ایس ایف پی اے) جیسے مسائل سے علیحدگی اختیار کر رکھی ہے جبکہ بی جے پی کو گھیرنے کے لیے نیشنل کانفرنس کا زور پوری طرح سے آرٹیکل 370 پر ہی رہا ہے۔بی جے پی کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر بحث جاری ہے اور اسے انتخابی مہم کا حصہ بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔