جوڈیشل کمیشن کے کام شروع کر تے ہی پلان سی ختم کردیں گے، عمران خان، دھرنا دھاندلی کی تحقیقات کے دوران بھی جاری رہے گا اور اس وقت ختم ہوگا جب کمیشن کا فیصلہ سامنے آئے گا ،تحریک انصاف کے کارکن جنگ جیت گئے، نیا پاکستان بن کر رہے گا، گیند حکمرانوں کے ہاتھ سے نکل گئی ہے،میں گزشتہ 2 ماہ سے ٹیلی فون کا منتظر تھا ،مسلم لیگ (ن) نے دباوٴ کے باعث مذاکرات کی دعوت دی ہے ، دھرنے سے خطاب

جمعرات 11 دسمبر 2014 08:38

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔11دسمبر۔2014ء ) تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان نے حکومت کی جانب سے غیر مشروط مذاکرات کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ جوڈیشل کمیشن انتخابی دھاندلی کی جیسے ہی تحقیقات شروع کرے گا ہم پلان سی ختم کردیں گے تاہم دھرنا کمیشن کے فیصلے تک جاری رہے گا،ملک میں طبقاتی تعلیمی نظام کی وجہ سے بربادی ہوئی، یکساں تعلیمی نظام لے کر آئیں گے۔

خیبرپختونخوا میں کالج، یونیورسٹیوں اور ہسپتالوں کا نظام تبدیل کریں گے،نظریے اور مفاد پرستی کے مقابلے میں نظریہ جیتتا ہے، تحریک انصاف کے کارکن جنگ جیت گئے، نیا پاکستان بن کر رہے گا، گیند حکمرانوں کے ہاتھ سے نکل گئی ہے ۔اسلام آباد میں دھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ اگر مسلم لیگ (ن) سنجیدگی سے مذاکرات کرنا چاہتی ہے تو ہم بھی تیار ہیں لیکن بات وہیں سے شروع کی جائے جہاں ختم ہوئی، مسلم لیگ (ن) نے دباوٴ کے باعث مذاکرات کی دعوت دی اور میں گزشتہ 2 ماہ سے ٹیلی فون کا منتظر تھا لیکن آج دعوت دی گئی تاہم ہمارا پروگرام شیڈول کے مطابق چلے گا اور جس دن جوڈیشل کمیشن اپنا کام شروع کردے گا ہم پلان ”سی“ ملتوی کرکے شہروں میں احتجاج ختم کردیں گے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ہم شہروں کو بند کرانا اور معیشت کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے لیکن انصاف کے حصول کے لئے ہمارے پاس احتجاج اور دھرنے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں۔عمران خان کا کہنا تھا کہ انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن 24 گھنٹے میں تشکیل دیا جاسکتا ہے اور اگر حکومت سنجیدہ ہے تو کراچی احتجاج سے قبل جوڈیشل کمیشن تشکیل دے لیکن دھرنا تحقیقات کے دوران بھی جاری رہے گا اور اس وقت ختم ہوگا جب کمیشن کا فیصلہ سامنے آئے گا۔

انہوں نے کہا کہ عام انتخابات میں خیبر پختونخوا میں دھاندلی کا الزام لگانے والے اسفند یار ولی اور افتخار حسین بتائیں کہ صوبے کے کس حلقے میں دھاندلی ہوئی، اگر خیبر پختونخوا میں دھاندلی ہوئی تھی تو اسفند یار ولی اور افتخار حسین نے مینڈیٹ کیوں قبول کیا اور وہ اس پر اب تک خاموش کیوں ہیں، آج بھی وہ صوبے کے جس حلقے میں کہیں گے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کرادیں گے۔