پا ک بھا رت مذاکرا ت میں فوری طور پر کسی بریک تھرو کا امکا ن نہیں ،سرتاج عزیز، جب تک بھارت مذاکرات کی پیش کش نہیں کرے گا بات چیت آگے نہیں بڑھ سکتی،بھارت کشمیر کے مسئلے کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑ کر انسانی حقوق کی خلاف ورزیو ں سے توجہ ہٹانا چاہتا ہے،کشمیر یو ں کی تحریک آ ذادی کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں،غربت کے خاتمے کے لئے ایک مساوی معاشرے کی تشکیل ضروری ہے،زمین پر آباد لوگوں کا تقریباً نصف حصہ غربت کی زندگی گزار رہا ہے، غر بت کے خا تمے کے لئے اقدامات اٹھا رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے نتائج حوصلہ افزاء نہیں، مشیر خا رجہ کی میڈیا سے بات چیت

بدھ 3 دسمبر 2014 08:45

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔3دسمبر۔2014ء)کھٹمنڈو میں سارک سربراہ کانفرنس کے موقع پر پاکستان اور بھارت کے درمیان برف نہیں پگھل سکی اور پاکستان نے ایک مرتبہ پھر اپنے اس موقف کا اعادہ کیا ہے کہ جب تک بھارت مذاکرات کی پیش کش نہیں کرے گا بات چیت آگے نہیں بڑھ سکتی اور وزیر اعظم کے قومی سلامتی و خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ بھارت کشمیر کے مسئلے کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑ کر انسانی حقوق کی خلاف ورزیو ں سے توجہ ہٹانا چاہتا ہے ۔

فوری طور پر کوئی بریک تھرو ہوتانظر نہیں آتا۔منگل کو پاک چائنا فرینڈ شپ سینٹر میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے سرتاج عزیز نے کہا کہ وزیر اعظم محمد نواز شریف لندن میں افغانستان کے بارے میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت کے لئے جارہے ہیں ۔

(جاری ہے)

اس سے قبل ٹوکیو میں ہونے والی کانفرنس میں افغانستان میں ترقی اور استحکام کے ایجنڈے پر بات چیت ہوئی تھی اس طرح اسے ٹوکیو ٹو کانفرنس قرار دیا جا سکتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ غربت کے خاتمے کے لئے ایک مساوی معاشرے کی تشکیل ضروری ہے اس سے سب کو ترقی کے مواقع ملیں گے ۔پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ)کی طرف سے منعقدہ کانفرنس میں بھی اسی بات پر زور دیا گیا ہے۔ہمیں عدم مساوات کا خاتمہ کرنا اور تمام شہریوں کو مساوی مواقع فراہم کرنا ہے ۔جو طلبہ پرائیویٹ سکولوں میں تعلیم کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے ہمیں ان کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے ۔

کانفرنس کی سفارشات کی روشنی میں پروگرام سامنے لائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ حکومت اپنی ذمہ داریوں بخوبی آگاہ ہے لیکن کوئی بھی پالیسی اس وقت کامیاب ہوتی ہے جب پورا معاشرہ ذمہ داری کو محسوس کرے ۔1990 کی دہائی میں بھی ہم نے پروگرام دیا تھا اس کے بعد نیشنل رورل سپورٹ پروگرام (این آر ایس پی) کے ذریعے اور غربت کے خاتمے کے لئے فنڈ قائم کر کے اقدامات اٹھائے گئے ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بھارت کشمیر کے مسئلے کو دہشت گردی کے ساتھ ملا کر توجہ تقسیم کرنا چاہتا ہے جبکہ وہ یہ بات تسلیم کرتا ہے کہ کشمیر کے اندر مقامی لوگوں کی تحریک جاری ہے جس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ۔بھارت خواہ مخواہ دہشت گردی کا شور مچاتا رہے گا تو مذاکراتی عمل آگے نہیں بڑھ سکتا۔یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم نوازشریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس مسئلے کو اٹھایا ۔

کشمیری سیاسی جدوجہد کررہے ہیں اور ہم اسے دنیا میں اجاگر کررہے ہیں ۔توقع ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر توجہ دے گا تاہم فوری طور پر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے حوالے سے کوئی بریک تھرو ہوتا نظر نہیں آتا ۔بات چیت ہوگی تو اعتماد سازی کے اقدامات ہو سکتے ہیں اور یہ سلسلہ باہمی احترام اور اعتماد سے آگے بڑھ سکتا ہے ۔

ایک اور سوال کے جواب سرتاج عزیز نے کہا کہ کٹھمنڈو میں بھی کچھ لوگوں نے کوشش کی تھی لیکن جب بھارت کہے گا تو پھر ہی بات ہوسکتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ غربت کے خاتمے کے لئے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت انتہائی غریب خاندانوں کو امداد دی جارہی ہے تا کہ وہ اپنی خوراک اور دیگر ضروریات پوری کر سکیں اس مقصد کے لئے70 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ روز گار کی فراہمی حکومت کا ہدف ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ملک میں سرمایہ کاری آئے،توانائی کا بحران ختم ہو۔ابھی کچھ سرمایہ کاری آنا شروع ہوئی ہے لیکن امن امان کی مخدوش صورت حال کا انتہائی منفی اثر ہوتا ہے۔کوشش ہے کہ آپریشن کے ذریعے اس صورت حال پر قابو پائیں تو پھر سرمایہ کاری آ سکتی ہے ۔

عمران خان کے دھرنے کے بارے میں سوال پر سرتاج عزیز نے کہا کہ امید ہے کہ چند ہفتوں میں یہ عدم استحکام ختم ہوگا ۔توانائی کے شعبے میں چینی سرمایہ کاری ہمارے لئے بڑا موقع ہے ۔بہت اچھے امکانات موجود ہیں اس موقع کو ضائع نہیں ہونا چاہیے۔قبل ازیں ”غربت ،عدم مساوات اور اقتصادی ترقی “ کے موضوع پرمنعقدہ 30 ویں سالانہ جنرل میٹنگ و کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سرتاج عزیز نے کہا کہ گزشتہ عشروں کے دوران غربت کے خاتمے پر توجہ دی گئی ہے لیکن اس کے باوجود غریب لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے ۔

زمین پر آباد لوگوں کا تقریباً نصف حصہ غربت کی زندگی گزار رہا ہے اور 1.2 ارب لوگ انتہائی غربت میں گھرے ہوئے ہیں ۔اگرچہ اس ضمن میں اقدامات ہو رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے نتائج حوصلہ افزاء نہیں۔میلینئم ترقیاتی اہداف میں بھی ایک ہدف غریبوں کی تعداد نصف کرنا تھا لیکن اس میں کامیابی نہیں ہوسکی ۔انہوں نے کہا کہ غربت کی بنیادی وجوہات میں معاشرے میں طاقت کا ڈھانچہ خاص طور پر قابل ذکر ہے جس کے تحت صرف مخصوص لوگوں کو ہی فائدہ ہوتا ہے ۔

عالمی بینک کی آزاد مارکیٹ اور دیگر پالیسیوں کے ساتھ ساتھ عالمگیریت کا بھی غریبوں پر منفی اثر پڑا ہے۔یہ لوگ سبسڈی میں کمی کی بات کرتے ہیں جس سے بے روز گاری اور دیگر نقائص پیدا ہوتے ہیں ۔دوسری جانب ترقی یافتہ ممالک آج بھی زرعی شعبے کو سبسڈیز دے رہے ہیں۔

متعلقہ عنوان :