حکومت کی پالیسیوں کا مقصد آزادانہ تجارت کا فروغ ہے ،خرم دستگیر،افغان صدر کے دورہ پاکستان میں باہمی تجارت کے فروغ ، سمگلنگ کے کنڑول اور ایسی تجارتی پالیسیوں پر اتفاق کیا گیا ہے جس سے دونوں ممالک کے مابین نہ صرف تجارت کو فروغ مل سکے گا بلکہ سنٹرل ایشیاء تک پاکستان کی رسائی بھی ممکن ہو سکے گی، حکومت تجارت کی شفاف پالیسیاں مرتب کرنے میں سنجیدہ ، بہتر حکمت عملی اور موثر قانون سازی کے ذریعے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جائیگا،اجلا س سے خطاب

بدھ 26 نومبر 2014 09:28

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔26نومبر۔2014ء)وفاقی وزیر برائے تجارت خرم دستگیر نے کہا ہے کہ حکومت کی پالیسیوں کا مقصد آزادانہ تجارت کا فروغ ہے حال ہی میں افغانستان کے صدر اشرف غنی نے پاکستان کا دورہ کیا اور انسے باہمی تجارت کے فروغ ، سمگلنگ کے کنڑول اور ایسی تجارتی پالیسیوں پر اتفاق کیا گیا ہے جس سے دونوں ممالک کے مابین نہ صرف تجارت کو فروغ مل سکے گا بلکہ سنٹرل ایشیاء تک پاکستان کی رسائی بھی ممکن ہو سکے گی۔

حکومت تجارت کی شفاف پالیسیاں مرتب کرنے میں سنجیدہ ہے اور بہتر حکمت عملی اور موثر قانون سازی کے ذریعے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جائیگا۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کامرس و ٹیکسٹائل انڈسٹری کا اجلاس چیئر مین کمیٹی سینیٹر حاجی غلام علی کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاوس میں منعقد ہوا ۔

(جاری ہے)

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں خیبر پختونخواہ کی کاروباری کمیونٹی کے متعلق عدالتی فیصلوں پرعمل درآمد نہ کرانے کے معاملات ، فلائنگ کرافٹ پیپر مل چارسدہ کے معاملات ، ڈی ٹی آر ای کی رپورٹ ، 2012سے 2015تک تجارتی پالیسی کیلئے تجویز کئے گئے اقدامات پر عمل درآمد، کیبنٹ کی طرف سے 2012میں اسلحہ و گولہ بارود کی ایمپورٹ کی ترمیمی پالیسی پر عمل درآمد ، بیرون ممالک کمرشل اتاشیوں کی تعیناتی کے معاملات ، پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارتی پالیسی کی موجودہ صورتحال کے علاوہ آزادانہ تجارت کے معاہدوں کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

قائمہ کمیٹی نے وزارت برائے کامرس و ٹیکسٹائل انڈسٹری کو ہدایت کی کہ خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والی کاروباری کمیونٹی کے متعلق ہائی کورٹ پشاور اور سپریم کورٹ نے جو فیصلے کئے ہیں ان پر عمل درآمد کرایا جائے۔ چیئر مین کمیٹی نے کہا کہ جب ہائی کورٹ نے ایک فیصلہ دے دیا تھا تو پھر سپریم کورٹ جانے کی کیا ضرورت تھی ۔ سپریم کورٹ نے بھی وہی فیصلہ دیا اور اسکے فیصلے کا دوبارہ رویو بھی کرایا گیااور وزارت قانون نے بھی ان کے حق میں رائے دی ہوئی ہے تو ادارہ ان فیصلوں پر عمل درآمد کیوں نہیں کروا رہا۔

ایسے رویوں کی وجہ سے ملک میں سرمایہ کاری وقت کیساتھ ساتھ کم ہوتی جارہی ہے ۔ڈی ٹی آر ای کے معاملے کے حوالے سے چیف (ایف اینڈ سی ایف بی آر) نے کمیٹی کو بتایا کہ 2010میں حکومت نے خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے عوام کیلئے ڈی ٹی آر ای کی سہولت دی تھی ۔ یہ وزیر اعظم کے سپیشل پیکج کے تحت فراہم کی گئی تھی جس پر رکن کمیٹی سینیٹر الیاس بلور نے کمیٹی سے سفارش کی کہ اس سہولت کو پورے ملک کیلئے اعلان کرایا جائے اس سے زر مبادلہ میں اضافہ ہو گا ڈی ٹی آر ای کی سہولت دوسرے شعبوں کو دی گئی ہے ویجیٹیبل گھی کو کیوں نہیں دی جارہی ۔

وفاقی وزیر برائے کامرس و ٹیکسٹائل انڈسٹری خرم دستگیر نے کمیٹی کو بتایا کہ ایکسپورٹ پرموشن کی سکیمیں تمام اداروں کے لئے وزارت تجارت کی پالیسی میں شامل ہیں صرف سمگلنگ کو کنڑول کرنے کیلئے معاملات ایف بی آر کے حوالے کئے جاتے ہیں ۔ حکومت کی پالیسیوں کا مقصد آزادانہ تجارت کا فروغ ہے انہوں نے کہا کہ حال ہی میں افغانستان کے صدر اشرف غنی نے پاکستان کا دورہ کیا اور انسے باہمی تجارت کے فروغ ، سمگلنگ کے کنڑول اور ایسی تجارتی پالیسیوں پر اتفاق کیا گیا ہے جس سے دونوں ممالک کے مابین نہ صرف تجارت کو فروغ مل سکے گا بلکہ سنٹرل ایشیاء تک پاکستان کی رسائی بھی ممکن ہو سکے گی ۔

حکومت تجارت کی شفاف پالیسیاں مرتب کرنے میں سنجیدہ ہے اور بہتر حکمت عملی اور موثر قانون سازی کے ذریعے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جائیگا۔ سیکریٹری برائے کامرس و ٹیکسٹائل انڈسٹری محمد شہزاد ارباب نے کمیٹی کو تجارتی پالیسی 2012-15پر عمل درآمد کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی ۔ انہوں نے کہا کہ وزارت خزانہ سے 15ارب روپے ملنے تھے مگر وہ نہیں مل سکے جس کی وجہ سے تمام تجویز شدہ پالیسوں پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔

اراکین کمیٹی نے تجویز شدہ پالیسوں کو عوامی سطح پر پہنچانے کی سفارش کی تاکہ حکومت کی طرف سے تجارت کے فروغ کیلئے جو اقدام اٹھائے گئے ہیں اس سے عوام کو بھی فائدہ حاصل ہو سکے ۔اسلحے اور گولہ بارود کی ایمپورٹ کے متعلق ترمیمی پالیسی کے حوالے سے محمد شہزاد ارباب نے کمیٹی کو بتایا کہ ترمیمی پالیسی پر عمل درآمد کرانے کیلئے کام ہو رہا ہے ایک ہفتے کے اندر پالیسی مرتب ہو جائیگی ۔

جس پر اراکین کمیٹی نے کہا کہ یہ انتہائی اہم مسئلہ ہے اور اس کو حل کرنے کے لئے تیز اقدامات کئے اجائیں ۔ بیرون ممالک کمرشل اتاشیوں کی تعیناتی کے حوالے سے کمیٹی کو بتایا گیاکہ پنجاب سے 23، سندھ سے چار ، بلوچستان سے 3اور خیبر پختونخواہ سے 6آفیسرز بیرون ممالک میں تعینات کئے گئے ہیں ۔ کارکردگی کی بنیاد پر تعیناتی عمل میں لائی جاتی ہے اور بیرون ملک سے واپس آ کر پھر کسی دوسرے ملک میں بھیجنے یا ملک میں ایک خاص وقت گزارنے کے وقت کوئی قانون سازی نہیں کی گئی ہے ۔

سینیٹر سلیم ایچ مانڈوی والا نے کہا کہ کچھ کمرشل اتاشیوں کی مدت 2015میں ختم ہو رہی ہے مگر پسند و نا پسند کی وجہ سے اضافی توسیع بھی دی جارہی ہے ۔ سینیٹر مشاہد اللہ نے کہا کہ کمرشل اتاشیوں کی بیرون ملک کارکردگی بہت خراب ہے ہماری ایکسپورٹ میں بہتری کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے جاتے ۔ارکین کمیٹی نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ ایک سب کمیٹی بنائی جائے جو کمرشل اتاشیوں سے متعلق قانون سازی کر سکے ۔

بھارت کیساتھ تجارت کے حوالے سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ تجارت کے فروغ کیلئے 1998میں ڈائیلاگ پروسیس شروع کیا گیاجسکے 7دور ہو چکے ہیں پہلے 1963 اشیاء کی تجارت کی منفی لسٹ تھی جو کم ہو کر اب 1209ہو چکی ہے ۔137اشیاء واہگہ باڈر سے منگوائی جائیں گی اور باقی اشیاء کراچی کے ذریعے آنے کی اجازت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نیا روڈ میپ بنایا جارہا ہے جس سے تمام اشیاء وہگہ بارڈر کے ذریعے منگوانے کے لئے تجویز دی گئی ہے ۔

بھارت نے سیکیورٹی کی وجہ سے یہ پالیسی مرتب کی تھی ۔اراکین کمیٹی نے آزادانہ تجارت کے معاہدوں کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے لوگ اس سہولت کا غلط استعمال کر رہے ہیں ۔ملک میں کوئی میکنزم موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے یہ معلوم ہو سکے کہ کونسی ایشیاء منگوائی اور بھیجی جار ہی ہیں۔اراکین کمیٹی نے ایف ٹی اے کی مانیٹرنگ کی سفارش کرتے ہوئے ایف ٹی اے کے غلط استعمال کو کنڑول کرنے کی ہدایت کر دی ۔

قائمہ کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹرز الیاس احمد بلور، سلیم ایچ مانڈوی والا ، ڈاکٹر کریم احمد خواجہ ، حاجی سیف اللہ خان بنگش ، سردار محمد یعقوب ناصر ، عدنان خان اور مشاہد اللہ خان کے علاوہ وفاقی وزیر تجارت خرم دستگیر ، سیکریٹری تجارت محمد شہزاد ارباب ، ایڈیشنل سیکریٹری کامرس اظہر علی چوہدری ، کمشنر آر ٹی او پشاور ایف بی آر نواب خان ، ایڈیشنل کمشنر طارق بلوچ ، چیف ایف بی آر ڈاکٹر کمال ،چیف ایکسپورٹ ایف بی آر ڈاکٹر ارسلان کے علاوہ دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔

متعلقہ عنوان :