اعلیٰ عدالتوں میں ثابت ہو چکا ہم نے کوئی قرضہ معاف نہیں کرایا، پرویزالٰہی ،چیئرمین پرائیوٹائزیشن زبیرعمر قومی خزانہ سے تنخواہ لے کر نواز، شہبازشریف کا نمائندہ بن گئے اور الزامات لگا رہے ہیں ، دونوں بھائی 9 ارب روپے کے نادہندہ ہیں ،ان کے قریبی سابق چیف جسٹس نے ایکشن لیا تو بھی ہمارے حق میں فیصلہ ہوا، میں نے اس سال 13 لاکھ 49ہزار روپے ٹیکس دیا، میڈیا سے گفتگو

بدھ 26 نومبر 2014 09:27

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔26نومبر۔2014ء) پاکستان مسلم لیگ کے سینئرمرکزی رہنما و سابق نائب وزیراعظم چودھری پرویزالٰہی نے کہا ہے کہ اعلیٰ عدالتوں میں ثابت ہو چکا ہے کہ ہم نے کوئی قرضہ معاف نہیں کرایا اور نہ ہی نادہندہ ہیں، نواز اور شہبازشریف نیشنل اور پنجاب بینک سمیت مختلف بینکوں اور مالیاتی اداروں کے 9ارب روپے کے نادہندہ ہیں جس پر پردہ ڈالنے کیلئے وہ دوسروں پر جھوٹے الزامات لگوا رہے ہیں حالانکہ اتفاق فاؤنڈری کے 6ارب روپے کے قرض پر 3ارب کا سود معاف کرانے کیلئے ان کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔

چودھری پرویزالٰہی نے بینکوں کے کلیئرنس سرٹیفکیٹ اور عدالتی فیصلہ دکھاتے ہوئے کہا کہ ان کے قریبی سابق چیف جسٹس افتخار چودھری نے ایکشن لیا تو بھی ہمارے حق میں فیصلہ ہوا، میں نے ذاتی طور پر رواں سال 13لاکھ 49ہزار روپے ٹیکس ادا کیا ہے۔

(جاری ہے)

چودھری پرویزالٰہی وزیر اطلاعات پرویزرشید اور چیئرمین پرائیوٹائزیشن کمیشن محمد زبیرعمر کی پریس کانفرنس کے بارے میں میڈیا کے سوالات کے جواب دے رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ زبیرعمر قومی خزانہ سے تنخواہ لے کر نواز اور شہبازشریف کے نمائندے بن کر کس حیثیت سے جھوٹے الزامات لگا رہے ہیں۔ چودھری پرویزالٰہی نے کہا کہ انہوں نے وزارتِ اعلیٰ کا حلف اٹھانے سے پہلے میں نے اپنی کمپنی سے استعفیٰ دیدیا تھا اور اپنی پوری مدت میں کوئی تنخواہ نہیں لی۔ انہوں نے کہا کہ نواز، شہبازشریف کے پاس ہمارے اور عمران خان کے خلاف کچھ نہیں ہے اس لیے یہ غلط ثابت ہونے والے الزامات دہرا رہے ہیں، پرائیوٹائزیشن کمیشن کے چیئرمین محمد زبیرعمر کی کیا کوالیفکیشن ہے جو وہ ن لیگ کے سیاسی مخالفین کے خلاف الزام تراشی کر رہے ہیں جبکہ ان کے جھوٹے الزامات کے جواب میں نواز، شہبازشریف کے بارے میں مستند حقائق سامنے آئیں گے۔

انہوں نے کہا کہ 2013ء میں سپریم کورٹ کے کمیشن نے فیصلہ دیا تھا کہ پنجاب شوگر ملز نے کوئی قرضہ معاف نہیں کروایا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے خلاف ایسا کوئی کیس ہوتا یا قرضے معاف کروائے ہوتے تو کیا ہم الیکشن لڑ سکتے تھے؟ مخالفین ہر الیکشن میں ہمارے خلاف عدالتوں میں جاتے ہیں لیکن اللہ کا شکر ہے کہ انہیں ہائیکورٹ سے بھی منہ کی کھانا پڑی۔

متعلقہ عنوان :