وزیر اعظم 26-27 نومبر کو کھٹمنڈو میں سارک سمٹ میں شرکت کریں گے،ترجمان دفتر خارجہ، وزیر اعظم کو بھارت کی جانب سے کسی گاڑی کی سہولت کی پیشکش ہوئی ہی نہیں ہ لہذاپیشکش کے ٹھکرا نے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،سکریٹری خارجہ 23 اور 24 نومبر کو سارک کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس اور وزیر اعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز کی قیادت میں پاکستانی وفد 25 نومبر کو منعقد ہونے والے وزراء کونسل کے اجلاس میں شرکت کرے گا،سارک اجلاس کے دوران بھارتی اعلی حکام سے ملاقاتوں کے حوالے سے ابھی معلومات میسر نہیں ہیں،مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سارک اجلاس میں متنازع مسائل پر بات کر نے کا کوئی قانونی نقطہ موجود نہیں ہے،ترجمان دفتر خارجہ تسنیم اسلم کا ہفتہ وارمیڈیا بریفنگ سے خطاب

جمعہ 21 نومبر 2014 08:36

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔21نومبر۔2014ء) دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف26-27 نومبر کو نیپال کے دارلحکومت کھٹمنڈو میں ہونے والے سارک سمٹ اجلاس برائے 2014ء میں شرکت کریں گے ، سارک اجلاس کے دوران وزیر اعظم کو بھارت کی جانب سے کسی قسم کی گاڑی کی سہولت کی پیشکش ہوئی ہی نہیں ہے لہذاپیشکش کے ٹھکرائے جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سیکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری 23 اور 24 نومبر کو سارک کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں اور وزیر اعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز کی قیادت میں پاکستانی وفد 25 نومبر کو منعقد ہونے والے وزراء کونسل کے اجلاس میں شرکت کرے گا،سارک اجلاس کے دوران بھارتی اعلی حکام سے ملاقاتوں کے حوالے سے ابھی معلومات میسر نہیں ہیں،مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سارک اجلاس میں متنازع مسائل پر بات کر نے کا کوئی قانونی نقطہ موجود نہیں ہے، دہشتگردی کے خلاف اپنی سخت ترین کوشیشوں کے حوالے سے پر اعتماد ہیں کہ جلد ہی ملک ایک پرامن اور زیادہ محفوظ علاقہ بن جائے گا،افغان صدر کا دورہ صرف علامتی طور پر ہی نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں بھی ایک کامیاب دورہ تھاجس دوران دونوں ممالک میں تعاون کے فروغ کے لئے بہت سے نئے شعبے دریافت کئے گئے ہیں، روس کے عالمی کردار کو نہایت اہمیت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کیونکہ وہ ایک ایسا ملک ہے جس کا اس خطے کے علاقائی امن و اعتدال میں اہم کردار ہے، پاکستان اور روسی فیڈریشن کے درمیان تعاون اور باہمی تعلقات میں اضافہ ہو رہا ہے،صرف دفاع ہی نہیں بلکہ رشین فیڈریشن کے ساتھ دیگر بہت سے شعبوں میں بھی تعاون جاری ہے،پاکستان میں سرمایہ کاری اور ترقیاتی منصوبوں میں روس کی وسیع تر شمولیت کے خواہشمند ہیں۔

(جاری ہے)

جمعرات کے روز دفتر خارجہ میں ہفتہ وار بریفنگ کے دوران ترجمان دفترخارجہ تسنیم اسلم کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نواز شریف26-27 نومبر کو نیپال کے دارلحکومت کھٹمنڈو میں ہونے والے سارک سمٹ اجلاس برائے 2014ء میں شرکت کریں گے ، سارک اجلاس کے دوران وزیر اعظم کو بھارت کی جانب سے کسی قسم کی گاڑی کی سہولت کی پیشکش ہوئی ہی نہیں ہے، اس قسم کی کوئی پیشکش یا ایسا کوئی واقعہ سرے سے ہوا ہی نہیں لہذاپیشکش کے ٹھکرائے جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ،اس حوالے سے شائع ہونے والی خبریں بے بنیاد اور بے سروپا ہیں،اجلاس کی میزبانی نیپال کر رہا ہے اور نیپال کے سفیر نے اس حوالے سے اپنی صفائی پہلے ہی پیش کر دی ہے، کانفرنس کے سارے انتظامات نیپال کی وزارت خارجہ کر رہی ہے ہر ملک کا اپنا سیکیورٹی اور پروٹوکول کا طریقہ کار ہو تا ہے اور ہم بھی اپنے سیکیورٹی اور پروٹوکول کے طریقہ کار پر عمل کر رہے ہیں ۔

ترجمان دفتر خارجہ نے کانفرنس کے حوالے سے مزید معلومات دیتے ہوئے کہا کہ سارک اجلاس سے قبل اجلاس کی پروگرام کمیٹی کا اجلاس 22 نومبر کو منعقد ہو گا جبکہ سیکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری 23 اور 24 نومبر کو سارک ااجلاس کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کریں گے۔سارک اجلاس کے حوالے سے وزراء کونسل کا اجلاس 25 نومبر کو منعقد ہو گا جس میں وزیر اعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز پاکستانی وفد کی قیادت فرمائیں گے ،جس کے بعد وزیر اعظم محمد نواز شریف 26 اور27 نومبر کو دو روزہ سارک سمٹ2014 ء اجلاس میں پاکستان کی قیادت کریں گے، اجلاس کے دوران وزیر اعظم کی میزبان ملک کے راہنماؤں سے ملاقاتیں ہوں گی تاہم اس کے علاوہ ملاقاتوں کے حوالے سے ابھی علم نہیں ہے، تاہم ایسے اجلاسوں کے دوران راہنماء آپس میں ملتے رہتے ہیں بھارتی اعلی حکام سے ملاقاتوں کے حوالے سے ابھی معلومات میسر نہیں ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جموں ا کشمیر ابھی بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے نزدیک ایک متنازع مسئلہ ہے، جو کہ خطے میں امن اور سلامتی کی ذمہ دار ہے،وزیر اعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کو اس مسئلہ میں فعال کردار ادا کرنے کے حوالے سیا یک خط بھی لکھا تھا کیونکہ مسئلہ کشمیر کا حل بھی سلامتی کونسل کے مینڈیٹ پر ہے،سارک اجلاس میں متنازع مسائل پر بات کر نے کا کوئی قانونی نقطہ موجود نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہاقوام متحدہ کے ملٹری آبزرویشن گروپ برائے انڈیا و پقاکستان کے حکام نے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری کے دورے کئے ہیں اور اس حوالے سے اپنی رپورٹ اقوام متحدہ کو بھیج دی ہے اس حوالے سے ہمارے نمائندے اور مستقل مشن اقوام متحدہ کے متعلقہ حکام سے رابطہ میں ہے،موجودہ کچھ عرصہ سے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر بھارت کی جانب سے کلاف ورزیوں کی اطلاعات موجود نہیں ہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ دفتر خارجہ کو متحدہ عرب امارات میں موجود پاکستانی سفیر کی جانب سے شکار کے لئے وہاں کے شاہی خاندان کے افراد کو بی- کیٹیگری کے ویزے جاری کرنے کے معاملے کا علم نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہ بات کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ پاکستان دہشت گردی کا شکار ہے اور55 ہزار پاکستانی اس کا شکار ہو چکے ہیں،ہم پہلے بھی کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ہم دہشت گردوں کے خلاف ایک جامع اورتیزرفتار کاروائی کر رہے ہیں،ہم اپنے دہشتگردی کے خلاف سخت ترین کوشیشوں کے حوالے سے پر اعتماد ہیں کہ جلد ہی ملک ایک پرامن اور زیادہ محفوظ علاقہ بن جائے گا، دہشت گردی کے فروغ میں مختلف بیرونی واندرونی وجوہات ہیں ، ملک میں دہشتگردی اس خطے کو گذشتہ تین دہائیوں سے پیش آنے والے حالات ہیں تاہم ہم اپنے ملینیم دیویلپمنٹ اہداف کے حصول میں سرگرم ہیں تاہم اس حوالے سے ہماری کاوشوں کو دہشتگردی اور قدرتی آفات سے شدید دھچکات پہنچے ہیں۔

مواقع کا فقدان اور بے روزگاری دہشت گردی کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ اقتصادی و معاشرتی ترقی ہماری دہشت گردی کے خلاف حکمت عملی کا اہم حصہ ہیں۔افغانستان کے ساتھ قریبی اور بھرپور تعاون پر مبنی تعلقات کا قیام پاکستان کی اولین ترجیح ہے،پاکستان کی ترجیحات میں ایک پر امن ، معتدل اور خوشحال افغانستان کا قیام شامل ہے جو کہ ہمارے اپنے ملکی و قومی مفاد میں ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات مختلف شعبوں میں بڑھا رہے ہیں،ہمارے افغانستان کے ساتھ تاریخی، مذہبی اور ثقافتی تعلقات موجود ہیں ترقیاتی و اقتصادی منصوبے جاری ہیں جو کہ دونوں ممالک کے لئے فائدہ مند ثابت ہو ں گیاور ان سے دونوں ممالک کے عوام کے آپسی رابطے بہتر ہوں گے، افغانستان کے300 طلباء کے لئے وظائف کی پیشکش بھی کی ہے۔

افغانستان کے صدر پروفیسر اشرف غنی کے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران ممالک کو باہم مربوط کرنے، اقتصادیات،تجارت اور دیگر وسیع الجہتی معاملات پر 42 اہم فیصلے کئے گئے تھے جن میں کیسا1000 جیسے اہم معاہدے اور دیگر جاری منصوبوں کو عملی جامعہ پہنانا اور افغانستان کی تعمیر نو و بحالی کے لئے فنڈز کا اجراء شامل ہیں۔افغان صدر کے حالیہ دورہ پاکستان کو کامیاب قرار دیتے ہوئے دفتر خارجہ کی ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ دورہ صرف علامتی طور پر ہی نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں بھی ایک کامیاب دورہ تھاجس دوران دونوں ممالک میں تعاون کے فروغ کے لئے بہت سے نئے شعبے دریافت کئے گئے ہیں۔

دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ روس کے عالمی کردار کو نہایت اہمیت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کیونکہ وہ ایک ایسا ملک ہے جس کا اس خطے کے علاقائی امن و اعتدال میں اہم کردار ہے، پاکستان اور روسی فیڈریشن کے درمیان تعاون اور باہمی تعلقات میں اضافہ ہو رہا ہے،صرف دفاع ہی نہیں بلکہ رشین فیڈریشن کے ساتھ دیگر بہت سے شعبوں میں بھی تعاون جاری ہے، بہت سے عالمی معاملات پر پاکستان اور روس کے موقف میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے جیسے کہ انسانی حقوق کونسل میں دونوں ممالک ہم خیال ممالک کے گروہ میں شامل ہیں،ہم پاکستان میں سرمایہ کاری اور ترقیاتی منصوبوں میں روس کی وسیع تر شمولیت کے خواہشمند ہیں اور اس حوالے سے روس کے وزیر دفاع بھی اس وقت پاکستان کے دورے پر یہاں موجود ہیں۔