چیف جسٹس کے کہنے پر فوج کا حاضر سروس افسر سیالکوٹ جیل میں ججز کے قتل کی تحقیقات کر چکا ہے،طاہر القادری،غیر جانبدار جے آئی ٹی کی تشکیل کیلئے آرمی چیف سے درخواست کر کے کوئی گناہ نہیں کیا ،سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ دار با اثر حکمرانوں نے ہم پر انصاف کے تمام دروازے بند کر دئیے،سربراہ پاکستان عوامی تحریک کا بیان

پیر 17 نومبر 2014 08:48

کینیڈا/ لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔17نومبر۔2014ء) پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے کہاہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ دار با اثر حکمرانوں نے ہم پر انصاف کے تمام دروازے بند کر دئیے۔آرمی چیف سے درخواست ہے کہ غیر جانبدار جے آئی ٹی کی تشکیل کیلئے مدد کریں۔مرکزی سیکرٹریٹ سے جاری ہونیوالے بیان کے مطابق ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ فوج کو انصاف کیلئے مدد دینے کا کہنے کا یہ پہلا موقع نہیں ہے،25جولائی 2003 کے دن سیالکوٹ میں 4سول اور سیشن ججزقتل اور متعدد زخمی کر دئیے گئے تھے۔

(جاری ہے)

اس وقت کے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے افواج پاکستان کے سربراہ کو انکوائری کی درخواست کی تھی کیونکہ مقتول فیملی کو پولیس کی تحقیقات پر اعتماد نہ تھا،لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے کہنے پر پاک فوج کے ایک حاضر سروس کرنل کو انکوائری افسر مقرر کیا گیا تھا، پاک فوج کے افسرنے انکوائری کرنے کا حکم ملنے کے فوراً بعد اپنا انکوائری دفتر ہی سیالکوٹ جیل میں منتقل کر لیا تھا اور 4 ہفتے کی ریکارڈ مدت میں انکوائری مکمل کر کے اس وقت کے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو رپورٹ پیش کر دی تھی اور اسی انکوائری رپورٹ کی روشنی میں ججز کو قتل کرنے والے ملزمان کو سزائیں ملیں،انہوں نے کہا کہ ہم نے آرمی چیف کو 14 بے گناہ افراد کے قتل کی شفاف تحقیقات میں مدد کرنے کی درخواست کر کے کوئی گناہ نہیں کیا، پاک فوج وہ واحد قومی ادارہ ہے جس پر پوری قوم کو اعتماد ہے جب ریاستی طاقت انصاف کے راستے میں حائل ہوتی ہے انصاف کے دروازے بند اور جمہوری آزادی کو سلب کر لیا جاتا ہے تو پھر قوم فوج کی طرف دیکھتی ہے، ہم بھی آج اسی کرب سے گزررہے ہیں اور انصاف کیلئے آرمی چیف سے درخواست کر رہے ہیں چونکہ حکومت کی درخواست پر چیف آف آرمی سٹاف فریقین کے مابین مذاکرات میں شامل ہوئے اور ہم نے ان سے اپنے مطالبات کے حوالے سے جو گفتگو کی تھی اسے انہوں نے فیئر کہا تھا اس لیے آج پیش رفت کے حوالے سے بھی انہیں کہہ رہے ہیں ،اس پر کسی کو جزبز نہیں ہونا چاہیے ،، انہوں نے کہا کہ قتل بھی ہمارے لوگ ہوئے، محصور بھی ہمیں کیا گیا، پولیس کی گولیوں سے زخمی بھی ہمارے لوگ ہوئے ،راستے بھی ہمارے بند کیے گئے ، 30,31 اگست کی رات اسلام آباد میں قیامت بھی ہم پر ڈھائی گئی اورمقدمات بھی ہمارے خلاف بنائے گئے اور ہمیں اشتہاری قرار دلوا کر کردار کشی بھی ہماری کی جارہی ہے، ایسا کس انصاف پسند قانون کی بالادستی کا دعویٰ رکھنے والے جمہوری معاشرے میں ہوتا ہے؟انہوں نے کہا کہ اگر حکومت فوج کو واپڈا، ریلوے، تعلیم کی کرپشن روکنے کیلئے تعاون کی درخواست کر سکتی ہے ، فوج کے افسران سے قتل کی وارداتوں کی غیر جانبدار انکوائری کروائی جا سکتی ہے، شفاف انتخابات،پولیو کے خاتمہ،مردم شماری کیلئے فوج کو کردار ادا کرنے کیلئے کہا جا سکتا ہے، امن وامان کیلئے حکومت فوج کی مدد لے سکتی ہے تو انصاف کیلئے ہم اپنی فوج کے سربراہ سے اپیل کیوں نہیں کر سکتے؟ انہوں نے کہا کہ ہر طرف سے دروازے بند ہونے پر افواج پاکستان کے سپہ سالار سے انصاف دلوانے کی استدعا کی ہے، ہماری اس درخواست کو انصاف کی فراہمی کے تناظر میں ہی دیکھا جائے۔