پاکستان میں داعش کی کوئی موجودگی نہیں ہے، موجودگی پائی گئی تو فوجی آپریشن کیا جائے گا، پرویز رشید،پا کستان میں پہلے ہی چند شدت پسند و دہشت گرد گروہ اپنی موجودگی رکھتے ہیں اور داعش کے آنے کے بعد ان گروہوں نے ہی اپنے اوپر داعش کا لیبل چپکا لیا ہے، تاہم ایسے گروہوں اور تنظیموں کے خلاف پہلے ہی فوجی کاروائیاں جاری ہیں اور انکو نشانہ بنایا جا ریا ہے، داعش کی مثال کو کا کولا جیسی ہے کہ ایک عالمی برانڈ ہونے کے باعث پوری دنیا میں ہر جگہ مقامی سطح پر اس کی نقل بنائی جاتی ہے، خصوصی گفتگو

بدھ 12 نومبر 2014 09:36

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔12نومبر۔2014ء) وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید نے کہا ہے کہ پاکستان میں شدت پسند مذہبی تنظیم داعش ( اسلامک اسٹیٹ ان عراق اینڈ سیریا) کی کوئی موجودگی نہیں ہے، اگر داعش کی پاکستان میں موجودگی پائی گئی تو اس کے خلاف فوجی آپریشن کیا جائے گا جیسا کہ دوسری دہشت گرد اور عسکریت پسند تنظیموں کے خلاف جاری ہے،پاکستان میں پہلے ہی چند شدت پسند و دہشت گرد گروہ اپنی موجودگی رکھتے ہیں اور داعش کے آنے کے بعد ان گروہوں نے ہی اپنے اوپر داعش کا لیبل چپکا لیا ہے، تاہم ایسے گروہوں اور تنظیموں کے خلاف پہلے ہی فوجی کاروائیاں جاری ہیں اور انکو نشانہ بنایا جا ریا ہے، داعش کی مثال کو کا کولا جیسی ہے کہ ایک عالمی برانڈ ہونے کے باعث پوری دنیا میں ہر جگہ مقامی سطح پر اس کی نقل بنائی جاتی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ عرب ممالک اور دنیا کے دیگر حصوں سے لوگ پاکستان آ کر داعش کی وال چاکنگ کر رہے ہیں بلکہ ایسا کرنے والے اکثر افراد وہی دہشت گرد اور عسکریت پسند ہیں جو کہ پہلے سے ہی مختلف مقامی کالعدم مذہبی ،عسکری و جہادی تنطیموں کے بھی رکن ہیں۔منگل کے روز خبر رساں ادارے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید نے کہا ہے کہ پاکستان میں شدت پسند مذہبی تنظیم داعش ( اسلامک اسٹیٹ ان عراق اینڈ سیریا) کی کوئی موجودگی نہیں ہے اور اس حوالے سے تمام خبریں افواہیں ہیں۔

سینیٹر پرویز رشید کا کہنا تھا کہ اگر داعش کی پاکستان میں موجودگی پائی گئی تو اس کے خلاف فوجی آپریشن کیا جائے گا جیسا کہ دوسری دہشت گرد اور عسکریت پسند تنظیموں کے خلاف جاری ہے۔ ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات نے کہا کہ پاکستان میں پہلے ہی چند شدت پسند و دہشت گرد گروہ اپنی موجودگی رکھتے ہیں اور داعش کے آنے کے بعد ان گروہوں نے ہی اپنے اوپر داعش کا لیبل چپکا لیا ہے، تاہم ایسے گروہوں اور تنظیموں کے خلاف پہلے ہی فوجی کاروائیاں جاری ہیں اور انکو نشانہ بنایا جا ریا ہے۔

انہوں نے کہا کہ داعش کی مثال کو کا کولا جیسی ہے کہ ایک عالمی برانڈ ہونے کے باعث پوری دنیا میں ہر جگہ مقامی سطح پر اس کی نقل بنائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ عرب ممالک اور دنیا کے دیگر حصوں سے لوگ پاکستان آ کر داعش کی وال چاکنگ کر رہے ہیں بلکہ ایسا کرنے والے اکثر افراد وہی دہشت گرد اور عسکریت پسند ہیں جو کہ پہلے سے ہی مختلف کالعدم مذہبی ،عسکری و جہادی تنطیموں کے بھی رکن ہیں۔

سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ حکومت پہلے ہی مختلف عسکریت پسند دہشت گرد گروہوں کے خلاف کاروائی کر رہی ہے اب وہ اپنے اوپر داعش کا لیبل لگا لیں یا اپنا کوئی بھی نام رکھ لیں ان کے خلاف تو پہلے ہی کاروائی کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام کو داعش سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ پاکستان میں داعش کی موجودگی کی خبروں میں کسی قسم کی کوئی صداقت نہیں ہے اور نہ ہی اس جماعت کا وجود ہے البتہ چند کالعدم مذہبی گروہ یا جماعتیں اس کا نام استعمال کر رہیں ہیں۔

واضح رہے کہ بعض مقامی و بین الاقوامی خبر رساں ادارے اور ملکی انٹیلی جنس ادارے اپنی رپورٹس میں ملک بھر بلخصوص خیبر پختونخواہ، قبائلی علاقہ جات اور بلوچستان میں داعش کے حوالے سے بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کی پہلی ہی اطلاعات فراہم کر چکے ہیں ، جن کے مطابق مبینہ طور پر پاکستان کے بعض قبائلی علاقہ جات بالخصوص ہنگو ،کرم ایجنسی، اورکزائی ایجنسی اور کوہاٹ میں داعش ابھی تک 8سے 10 ہزار رضاکار بھرتی کر چکی ہے جس کے لئے بھاری مالی ترغیبات فراہم کی جا رہی ہیں،جبکہ اطلاعات کے مطابق ملک بھر میں 300 سے زائد داعش کے فعال کارکنان موجود ہیں اور گذشتہ دنوں آسٹریلیا و یورپ میں زیر تعلیم 6 طالب علم داعش کے اثرات کے تحت اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر تنظیم کی تنظیم نو کے لئے پاکستان پہنچ چکے ہیں اور کراچی سمیت دیگر چند علاقوں میں سڑکوں پر داعش کی باقائدہ وال چاکنگ بھی بڑھتی جا رہی ہے۔