” صاد ق اورامین کافیصلہ“درخواستوں کوسات رکنی بنچ کے روبروبھجوانے کی اٹارنی جنرل کی استدعا مسترد،جو عدلیہ یافوج کی تذلیل کریگا نااہل ہوگا،وزیراعظم یا وزیرداخلہ کے نااہل ہونے سے سروکار نہیں، جو بھی نتائج ہوں آئین کے مطابق فیصلہ کرنا ہے،جسٹس جواد ایس خواجہ،اسپیکر نے بھی درخواست گزاروں کی درخواستیں مسترد کی تو وہ کہاں جائیں اور درخواست گزاروں کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیئے کہ آئین کا آرٹیکل 10 اے بھی موجود ہے ،ریمارکس،جس نے بدمعاشی کرناہے وہ اپنی نجی زندگی میں کرے،جھوٹ ،ہیراپھیری ،چوری چکاری کرنے والے ارکان پارلیمنٹ نہیں بن سکتے ،جسٹس سرمد جلال عثمانی،کیس میں فورم کافیصلہ بھی کرلیاجائیگا،جوسزایافتہ ہے وہ الیکشن لڑنے کا اہل نہیں

جمعرات 6 نومبر 2014 09:40

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔6نومبر۔2014ء )سپریم کورٹ نے صاد ق اورامین کافیصلہ کرنے کے لیے موجودہ درخواستوں کوسات رکنی بنچ کے روبروبھجوانے کی اٹارنی جنرل پاکستان کی استدعا مستردکردی جبکہ وزیراعظم نااہلی کیس کی سماعت کے دوران قائم مقام چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کوئی عدلیہ یافوج کی تذلیل کرے گاتووہ نااہل ہوگا،وزیراعظم یا وزیرداخلہ کے نااہل ہونے سے کوئی سروکار نہیں چاہے جو بھی نتائج ہوں عدالت کو آئین کے مطابق فیصلہ کرنا ہے،اسپیکر نے بھی درخواست گزاروں کی درخواستیں مسترد کی تو وہ کہاں جائیں اور درخواست گزاروں کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیئے کہ آئین کا آرٹیکل 10 اے بھی موجود ہے ۔

اٹھارہویں ترمیم میں طے پایاتھاکہ اب کوئی بھی جوصادق اورامین نہیں ہوگااسمبلیوں میں نہیں جائیگااگرعدالت حالات کے تناظر میں فیصلے دینے لگ جائے تومتنازعہ فیصلے ہی آئیں گے، عدالت پرذمہ داری عائدہوتی ہے کہ وہ آئین ہرعمل درآمدیقینی بنائے، منتخب رکن کے لیے صادق اور امین ہونے کاتقاضاہم نہیں آئین کررہاہے ،ارکان پارلیمنٹ اور سرکاری افسران کوایماندار ہوناچاہیے،جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہاکہ جس نے بدمعاشی کرناہے وہ اپنی نجی زندگی میں کرے،جھوٹ ،ہیراپھیری ،چوری چکاری کرنے والے ارکان پارلیمنٹ نہیں بن سکتے ،کیس میں فورم کافیصلہ بھی کرلیاجائیگاجھوٹاشخص توکبھی بھی جھوٹ بول سکتاہے،آئین میں واضح ہے کہ جوسزایافتہ ہے وہ الیکشن لڑنے کے لیے اہل نہیں ۔

(جاری ہے)

قائم مقام چیف جسٹس جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ وزیراعظم کی نااہلی سے متعلق چوہدری شجاعت حسین، گوہر نواز اور اسحاق خاکوانی کی جانب سے دائر درخواستوں کی سماعت کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے 4 سوالات پر معاونت طلب کی تھی جس میں کہا گیا کہ اگر کسی ممبر اسمبلی کے نااہل ہونے کی درخواست آتی ہے تو مجاز فورم کون سا ہے؟، اگر طے ہوتا ہے کہ معاملہ عدالت سنے گی تو کون سی مجاز عدالت ہوگی؟، نااہلی کے لئے مجوزہ طریقہ کار کیا ہوگا؟ اور آخری سوال یہ کہ نااہلی کے لئے مجوزہ طریقہ کار کے لئے ثبوت کیا ہوں گے۔

اس موقع پر جسٹس جواد کا کہنا تھا کہ کسی کے صادق ہونے کا تعین عدالت نے کرنا ہے جبکہ اسپیکر نے بھی درخواست گزاروں کی درخواستیں مسترد کی تو وہ کہاں جائیں اور درخواست گزاروں کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیئے کہ آئین کا آرٹیکل 10 اے بھی موجود ہے تاہم اس سے کوئی سروکار نہیں کہ وزیراعظم اور وزیرداخلہ نااہل ہوجائیں لیکن ہمیں آئین کے مطابق فیصلہ کرنا ہے۔

جسٹس جواد نے کہاکہ اٹھارہویں ترمیم 2010میں ہوئی آئین پاکستان عوام کی خواہشات کاعکاس ہے کسی کاصادق امین ہوناہماراذاتی مطالبہ نہیں ہے حکومت اور اپوزیشن کے اختلافات سے کوئی سروکارنہیں تاہم اٹھارہویں ترمیم میں طے پایاتھاکہ اب کوئی بھی جوصادق اورامین نہیں ہوگااسمبلیوں میں نہیں جائیگااگرعدالت حالات کے تناظر میں فیصلے دینے لگ جائے تومتنازعہ فیصلے ہی آئیں گے،جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہاکہ آئین میں پہلے صاد ق اور امین سے متعلقہ آرٹیکلزہیں اس کے بعدممبراسمبلی سے متعلق بات کی گئی ہے اگرکوئی شخص صاد ق اورامیں نہیں ہے تواس کافیصلہ ریٹرننگ افسران نہیں کرسکتے اس کے لیے کسی مجازعدالت میں جانا ہوگا سزا یافتہ ہونے پرآراوکسی بھی شخص کو الیکشن میں حصہ لینے سے روک سکتاہے کیاعدالت میں ثابت ہوگیاکہ وزیر اعظم نے جھوٹ بولاہے جسٹس جواد نے کہاکہ عدالت پرذمہ داری عائدہوتی ہے کہ وہ آئین ہرعمل درآمدیقینی بنائے منتخب رکن کے لیے صادق اور امین ہوناکاتقاضاہم نہیں آئین کررہاہے ارکان پارلیمنٹ اور سرکاری افسران کوایماندار ہوناچاہیے ،جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہاکہ جس نے بدمعاشی کرناہے وہ اپنی نجی زندگی میں کرے۔

درخواست گزار سندھونے کہاکہ ان کی رائے میں صادق اورامین ہونے کاتعین ہائی کورٹ کرسکتی ہے جس پر جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہاکہ ہائی کورٹ آئینی عدالت ہے جوشواہد جمع نہیں کرسکتی اور ناہی کسی قسم کاٹرائل کرسکتی ہے کیس کافورم دیکھناہوگاجھوٹ ،ہیراپھیری ،چوری چکاری کرنے والے ارکان پارلیمنٹ نہیں بن سکتے ،کیس میں فورم کافیصلہ بھی کرلیاجائیگاجھوٹاشخص توکبھی بھی جھوٹ بول سکتاہے ،آئین میں واضح ہے کہ جوسزایافتہ ہے وہ الیکشن لڑنے کے لیے اہل نہیں ہے ،درخواست گزار گوہر نوازسندھونے کہاکہ وزیر اعظم نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سفید جھوٹ بولا اس پر جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہاکہ آئین میں یہ کہاں لکھاہے کہ جوجھوٹ بولے اس کو اسمبلی سے باہر نکال دیاجائے اور ویسے بھی کیاکسی عدالت میں وزیر اعظم کا جھوٹ بولناثابت ہوگیاہے توبتایاجائے اس پر درخواست گزار نے کہاکہ ابھی ایساتوکچھ نہیں ہواہے اس دوران چوہدری شجاعت حسین اور اسحاق خاکوانی کے وکیل عرفان قادر کاجسٹس جواد ایس خواجہ سے مکالمہ بھی ہواجس میں عرفان قادر نے کہا کہ انھوں نے جسٹس جواد ایس خواجہ کی بنچ میں موجودگی کوعدالت میں چیلنج کررکھاہے لیکن سپریم کورٹ دفتر ان کی درخواست کوسماعت کے لیے ابھی تک نہیں لگارہاہے اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ گوہر نوازسندھوکہتے ہیں کہ کیس کی سماعت میں کروں اور آپ کہتے ہیں کہ ناکروں ،کوشش کریں گے کہ اگلی سماعت پراس کافیصلہ آجائے اگلی سماعت سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں کرنے کے خواہشمند ہیں اس دوران اٹارنی جنرل پاکستان نے کہاکہ صاد ق اورامین کافیصلہ کرنے کے لیے موجودہ درخواستوں کوسات رکنی بنچ کے روبروبھجوادیاجائے اور یہ مناسب بھی ہوگامگر عدالت نے ان کی یہ استدعامستردکردی اور کہاکہ اگلی سماعت پر اس کاکوئی ناکوئی فیصلہ کردیاجائے گافی الحال اس کی سماعت دس نومبر تک ملتوی کررہے ہیں جن درخواست گزاروں نے اپنے ذاتی اور جماعت کی جانب سے درخواستیں دائرکرنے کے حوالے سے جوابات داخل نہیں کرائے وہ بھی جلد کرادیں ،واضح رہے کہ چیف جسٹس ناصر الملک کے کوریاکے دس روزہ سرکاری دورے کے باعث بنچ میں رد و بدل کیاگیا ، قائم مقام چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کیس کی سماعت کرے گا۔

جسٹس سرمد جلال عثمانی اورجسٹس مشیرعالم بنچ میں شامل ہیں۔ عدالتی احکامات پر اٹارنی جنرل نے بطور معاون کیس میں اپنا تحریری جواب جمع کرا دیا ہے۔ جواب میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کی کارروائی کوآئین میں تحفظ حاصل ہے ، پارلیمنٹ کی کارروائی کسی عدالتی فورم میں چیلنج نہیں ہو سکتی اس لیے درخواست ناقابل سماعت ہے۔ عدالت نے گزشتہ سماعت پرتینوں درخواست گزاروں کو ہدایت کی تھی کہ بتایا جائے ان کی درخواستیں انفرادی حیثیت میں ہیں ، یا جماعت کی نمائندگی کرتی ہیں۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت دس نومبر تک ملتوی کردی کیس کی اگلی سماعت کوئٹہ سپریم کورٹ رجسٹری برانچ میں کیے جانے کابھی امکان ہے ۔