قائد حزب اختلاف سید خورشیدکی استدعاء مسترد ،سپریم کورٹ کا 13 نومبرتک مستقل چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کا حکم، یکم دسمبر تک رپو رٹ ما نگ لی ، انتخابی اصلاحات کا انتظار کئے بغیر 13 نومبر تک چیف الیکشن کمشنر کا تقرر ہر صورت میں کیا جائے، سپریم کو رٹ ،صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کیلئے درخواست بھی مسترد ، 9 ماہ بہت زیادہ ہیں اتنا زیادہ وقت نہیں دے سکتے‘ یکم دسمبر تک حلقہ بندیاں مکمل کرکے سپریم کورٹ کو آ گا ہ کیا جا ئے ، ‘ کب تک اپنا جج دیں‘ عدالتی کام متاثر ہورہا ہے‘ الیکشن ریفارمز نجانے کب ہوں مگر مستقل چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی تو کی جائے، چیف جسٹس ناصرالملک کے ریما رکس

جمعہ 31 اکتوبر 2014 08:34

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔31اکتوبر۔2014ء) سپریم کورٹ نے مستقل چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کیلئے قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ کی جانب سے تین ماہ کی استدعاء مسترد کردی ہے اور کہا ہے کہ انتخابی اصلاحات کا انتظار کئے بغیر 13 نومبر تک چیف الیکشن کمشنر کا تقرر ہر صورت میں کیا جائے جبکہ عدالت نے صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کیلئے درخواست بھی مسترد کردی اور کہا ہے کہ 9 ماہ بہت زیادہ ہیں اتنا زیادہ وقت نہیں دے سکتے‘ یکم دسمبر تک حلقہ بندیاں مکمل کرکے سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کروائی جائے جبکہ چیف جسٹس ناصرالملک نے ریمارکس دئیے کہ ایک سال کا عرصہ گزر گیا تاحال مستقل چیف الیکشن کمشنر کا تقرر نہیں کیا جاسکا‘ کب تک اپنا جج دیں‘ عدالتی کام متاثر ہورہا ہے‘ الیکشن ریفارمز نجانے کب ہوں مگر مستقل چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی تو کی جائے جب اصلاحات ہوں گی تو تب دیکھا جائے گا۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس جمعرات کے روز دئیے۔ چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد اور چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی بارے خورشید شاہ کی درخواستوں کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ ایک آئینی عہدہ ہے اس کی تقرری آئینی تقاضا ہے مشاورت کرنے والے ایک سال سے کیا کررہے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر کو ایک سال بعد فعال ہونے کا خیال آیا وہ پہلے بھی تو یہ بات کرسکتے تھے۔

انتخابی اصلاحات کا معاملہ تو اب شروع ہوا ہے جبکہ چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کا معاملہ تو کافی پرانا ہے۔ مشاورت اور انتخابی اصلاحات دو الگ چیزیں ہیں۔ خورشید شاہ کے وکیل بیرسٹر اعتزاز احسن نے بتایا کہ انتخابی اصلاحات کے بعد اگر چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کا طریقہ کار تبدیل ہوگیا تو مسئلہ پیدا ہوجائے گا اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جب یہ ترمیم ہوگی تو دیکھا جائیگا۔

موجودہ آئین اور ترمیم کے حوالے سے ہی بحث کی جائے۔ کیا قائد حزب اختلاف کو بھی وزیراعظم کی طرح چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کیلئے وقت دیا جائے

اس پر اٹارنی جنرل نے کہاکہ انہیں انتخابی اصلاحات اور ترمیم کے حوالے سے کوئی علم نہیں اور نہ ہی انہیں کوئی ہدایات دی گئی ہیں عدالت جو حکم دے گی اس پر عمل کیا جائے گا اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ وزیراعظم کو وقت نہ دیا جائے اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو عدالت حکم دے۔

اعتزاز احسن نے کہا کہ کمیٹی بن چکی ہے اور اسے تین ماہ ہوچکے ہیں۔ قانون کے مطابق وزیراعظم اور قائد ہزب اختلاف کی بامعنی مشاورت ضروری ہے مگر اس وقت تو سیاسی جماعتیں موجودہ الیکشن کمیشن پر کافی تحفظات کا اظہار کررہی ہیں جس سے بعد میں ترمیم سے حالات کافی بدل سکتے ہیں۔ ہم نے مہلت اسی لئے مانگی ہے تاکہ بامعنی مشاورت کی جاسکے اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اب تک حکومت اور اپوزیشن کیا کرتی رہی ہے‘ سال کا عرصہ تو گزر گیا ہے مزید وقت نہیں دے سکتے۔

بعدازاں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد بارے الیکشن کمیشن نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ حلقہ بندیوں کیلئے کم ا کم 9 ماہ کا عرصہ درکار ہوگا کیونکہ حلقہ بندیاں مقامی سطح پر کی جانی ہیں اس پر عدالت نے کہا کہ پہلے اقدامات کیوں نہیں کئے اب مزید وقت نہیں دیں گے۔ یکم دسمبر تک رپورٹ دی جائے۔ سندھ حکومت کی جانب سے بتایا گیا کہ قانون بن گیا ہے‘ تمامتر اختیارات الیکشن کمیشن کو دے دئیے گئے ہیں۔

پنجاب نے بھی اسی طرح کا جواب عدالت میں پیش کیا۔ الیکشن کمیشن نے کے پی کے حکومت سے ہونے والی مشاورت سے بھی عدالت کو آگاہ کیا تاہم عدالت نے ان کی 9 ماہ کا وقت دینے کی استدعاء مسترد کردی اور یکم دسمبر تک حلقہ بندیوں اور بلدیاتی انتخابات بارے کئے گئے اقدامات پر رپورٹ طلب کی ہے جبکہ مستقل چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کیلئے حکومت کو 13 نومبر تک مہلت دی ہے۔