پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ مذاکرات آج دبئی میں شروع ہو رہے ہیں، پاکستان کوایک ارب 10 کروڑ ڈالر قرض کی دوقسطیں ایک ساتھ جاری ہونے کا امکان،وزارت خزانہ کی ٹیم مذاکرات میں شرکت کے لئے دبئی پہنچ گئی

بدھ 29 اکتوبر 2014 08:48

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔29اکتوبر۔2014ء) پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ کے درمیان مذاکرات آج دبئی میں شروع ہو رہے ہیں ، پاکستان ان مذاکرات میں عالمی مالیاتی فنڈ کی جانب سے ایک ارب 10 کروڑ ڈالر کی دو اقساط کی منظوری حاصل کرنے کے لئے عالمی مالیاتی فنڈ کے حکام سے بات چیت کرے گا ، جس دوران ان مذاکرات میں گذشتہ اکتوبر میں امریکہ میں ہونے والے پاکستان - آئی ایم ایف مذاکرات کے دوران آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو دسمبر میں ملنے والی دو مالی اقساط کے لئے آئی ایم ایف کی جانب سے کئے گئے مطالبات ، پاکستان کی معیثت کی کارکردگی اور حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کے متعین کردہ اہداف پر کارکردگی کے حوالے سے بات چیت ہو گی۔

مذاکرات کے دوران دونوں فریقوں نے پاکستان کے معاشی پروگرام کے چوتھے اور پانچویں جائزے کو ایک ساتھ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ دسمبر میں 'آئی ایم ایف' کے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس سے پاکستان کو قرض کی دو اقساط کی ایک ساتھ ادائیگی منظور کرائی جاسکے۔

(جاری ہے)

حکومت پاکستان - آئی ایم ایف مذاکرات سے قبل پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہر القادری کی جانب سے شاہراہ دستور پر دھرنا ختم کرنے کا اعلان حکومت کے حق میں جاتا ہے تاہم دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے ملک گیر جلسے ، ریلیاں ا ور ڈی چوک میں جاری ان کا دھرنا ان مذاکرات پر نہایت منفی اثرات مرتب کرے گاکیونکہ واشنگٹن ڈی سی میں ہونے والے گذشتہ مذاکرات میں بھی ان دھرنوں کے باعث حکومت پر شدید دباؤ موجود رہا ۔

بعض معاملات حکومت ابھی بھی آئی ایم ایف کی شرائط کو اس طرح پورا نہیں کر سکی جیسا کہ عالمی مالیاتی فنڈ کی جانب سے مطالبہ کیا گیا تھا بلخصوص توانائی اور نجکاری کے شعبہ میں۔ حکومت آئی ایم ایف مذاکرات کے آخری دنوں میں وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحاق ڈارکی جانب سے مذاکرات میں شرکت کے لئے دبئی کا دورہ متوقع ہے جہاں وہ عالمی ملایاتی فنڈکے مشن چیف برائے پاکستان جیفری فرینک سے ملاقات کریں گے۔

مذاکرات کے اختتام پر وزیر خزانہ اور جیفری فرینک کی جانب سے مشترکہ پریس کانفرنس میں مذاکرات کے حوالے سے تفصیلات پیش کی جائیں گی۔

واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے مبینہ طور پر بجلی کے ٹیرف کے نرخوں میں دیگرٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کی مد بلواسطہ اضافہ اور مبینہ طور پر ملک میں بجلی کے تیز چلنے والے میٹروں کومتعارف کروانا آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کی تیاریوں کی ہی ایک کڑی تھی کیونکہ ان مذاکرات میں بنیادی مسائل و مطالبات ا سٹیٹ بنک آف پاکستان ایکٹ میں ترامیم متعارف کروانے،ا سٹیٹ بنک کی خود مختاری، توانائی کے شعبہ میں اصلاحات ،نقصان میں چلنے والے اداروں کی ری سٹرکچرنگ ، ایس آر اوز کو واپس لینے کی رفتار اورپبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے ماضی کے بیک لاگ میں ہونا والے بھاری اضافہ کے معاملات،پی آئی اے کی نجکاری اورا سٹیٹ بینک کے بین الاقوامی زر مبادلہ کے ذخائرمیں اضافہ، حکومت کے مالی معاملات میں شفافیت، محصولات کی وصولیوں کے نظام میں بہتری سمیت دیگر معاملات شامل تھے جن پر حکومت کی زیادہ اچھی کارکردگی نہ ہونے کے باعث گذشتہ مذاکرات زہادہ کامیاب ثابت نہیں ہو سکے۔

وزیر خزانہ نے پاکستان - آئی ایم ایف مذاکرات کے حوالے سے اکتوبر میں ہی اپنے د ورہ امریکہ کے دوران واشنگٹن ڈی سی میں آئی ایم ایف کے حکام سے ملاقاتیں کیں تھیں جن میں پاکستان کی اقتصادی صورتحال اور قرض کی نئی اقساط کے حوالے سے بات چیت کی گئی، ان ملاقاتوں کے د وران آئی ایم ایف کے مشن چیف برائے پاکستان جیفری فرینکس نے یقین دھانی بھی کروائی تھی کہ آئی ایم ایف پاکستان کی جانب سے وعدہ شدہ اصلاحات کا جائزہ لے رہے ہیں، اگر کام مکمل ہو گیا تو دسمبر میں ایک ارب 10کروڑ ڈالر قرض کی دواقساط ایک ساتھ جاری کرہونے کی توقع ہے۔

آئی ایم ایف' نے پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے گزشتہ برس ستمبر میں پاکستانی حکومت کو تین برسوں کے دوران کل 8ء6 ارب ڈالر قرض دینے کی منظوری دی تھی۔قرض کی رقم پاکستانی حکومت کو قسطوں میں ادا کی جانی ہے اور ہر قسط کی ادائیگی ان اصلاحات پر پیش رفت سے مشروط ہے جو قرض کی ادائیگی کے لیے 'آئی ایم ایف' نے عائد کی ہیں۔ان شرائط میں خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری، حکومت کے مالی معاملات میں شفافیت، محصولات کی وصولیوں کے نظام میں اصلاحات جیسے اقدامات شامل ہیں جن پر پاکستانی حکومت مرحلہ وار عمل کر رہی ہے۔

متعلقہ عنوان :