مولانا فضل الرحمان نے خود پر حملوں کو عالمی سازش کا حصہ قراردیدیا، کچھ قوتیں پاکستا ن میں فرقہ وارانہ فسادات کرانا چاہتی ہیں،وزیراعظم او رساری سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر عالمی ایجنڈے کا جائزہ لیں،فضل الرحمان خلیل نے چین کیخلاف لڑنے سے انکار کیا تو امریکہ نے دہشت گرد قراردیدیا،دھرنے اس لئے دیئے گئے کہ ہم مسئلہ فلسطین پر موثر آواز بلند نہ کرسکیں اور اس ملک کو کھیل تماشوں میں الجھا دیا جائے ،قومی اسمبلی میں اظہار خیال

منگل 28 اکتوبر 2014 08:24

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔28اکتوبر۔2014ء)جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ان پر حملے عالمی سازش کا حصہ ہیں، کچھ قوتیں پاکستا ن میں فرقہ وارانہ فسادات کرانا چاہتی ہیں، ہم چاہتے تو حملہ کے بعد کوئٹہ کو آگ لگ جاتی لیکن ہم نے تحمل کا مظاہرہ کیا، وزیراعظم او رساری سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر عالمی ایجنڈے کا جائزہ لیں،مولانا فضل الرحمان خلیل نے چین کیخلاف لڑنے سے انکار کیا تو امریکہ نے انہیں دہشت گرد قراردیدیادھرنے اس لئے دیئے گئے کہ ہم مسئلہ فلسطین پر موثر آواز بلند نہ کرسکیں اور اس ملک کو کھیل تماشوں میں الجھا دیا جائے ۔

پیر کو قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہمیں اب سوچنا ہوگا کہ ہم ایسی دلدل میں کیوں پھنس گئے ہیں جس سے نکلنے کا سوچ بھی نہیں رہے ہیں اور اگر کوئی ملک کو اس دلدل سے نکالنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے کیوں دشمن بن جاتے ہیں ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ اس وقت پوری دنیا خصوصاً اسلامی دنیا میں اضطراب کا ماحول موجود ہے اور ایسے حالات پیدا ہورہے ہیں کہ عالمی قوتیں دہشت گردی اور شدت پسندی کیخلاف لڑنے کے دعویدار بھی بنے ہیں اور دوسری جانب اس شدت پسندی اور دہشتگردی کو فروغ بھی دیتے رہیں ۔

انہوں نے کہا کہ اس عالمی ایجنڈے کے تدارک کیلئے اقدام نہیں کئے جارہے ہیں، اب دنیا میں ایسی کئی تنظیمیں بنائی جارہی ہیں اور ان کے رابطوں بارے بھی عجیب سی صورتحال ہے جو اس سازش کو بے نقاب کرے گا اس کو دشمن بنا کر نشانہ بنا دیا جاتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جو کچھ مشرق وسطیٰ میں ہورہا ہے اس کا تعارف اب پشتون ایریا اور پاک افغان بارڈر پر ہورہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ میں کوئی ہار محسوس نہیں کررہا کہ اب جنگ امریکہ اور مغرب کی ضرورت ہے کیونکہ جنگ اور کسی کو دشمن ، کسی کو دہشتگرد ، شدت پسند کہیں ماحول واضح کرے تاکہ امریکہ پوری دنیا کی سیاست پر غلبہ حاصل کرسکے اور دنیا میں مہم جوئی کے لیے عسکریت پسندی کا جواز تلاش کیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ مجھ پر کوئی تیسرا حملہ نہیں ہے بلکہ پہلا حملہ میرے بیٹے پر ہوا جب فائرنگ کرکے شاید میرے بھائی کو مارنا تھا کچھ عرصہ قبل میرے بھائی عطاء الرحمن پر راکٹ حملہ ہوا ۔

2008ء کے الیکشن میں میرے گھر پر راکٹ حملہ ہوا حالانکہ اس وقت وہ موٹر سائیکل بھی پکڑا گیا مگر پھر کوئی کارروائی نہیں ہوئی، صوابی میں مجھ پر حملہ ہوا چار سدہ میں بھی حملہ ہوا ۔

انہوں نے کہا کہ مسئلہ صرف میرا نہیں ہے یہ پوری سیاست کا مسئلہ ہے اس وقت پیپلز پارٹی ، ایم کیو ایم ، مسلم لیگ (ن) ، اے این پی سمیت کوئی سیاسی جماعت بھی محفوظ نہیں ہے تاکہ سیاستدانوں کو گوشہ نشین کردیا جائے اصل میں مسئلہ یہی ہے ریاست ہمارے ساتھ کیا کررہی ہے آج تک پانچ واقعات بارے حقائق نہیں بتائے گئے ۔

اگر اداروں کی ہاں میں ہاں ملالیں تو سب ٹھیک اور اگر مخالفت کریں تو ناراض ہوجاتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ جب امریکہ نے چین کیخلاف کارروائیوں کیلئے فضل الرحمن خلیل کو استعمال کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے انکار کردیا تو انہیں عالمی دہشت گرد قرار دے دیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس لیے نہیں کہ سعودی عرب ، بحرین ، لیبیا اور دیگر ملکوں کا امن تباہ کریں قراردادیں کیا کہتی ہیں اور ہم کرتے کچھ اور ہیں ۔

ہم نے بین الاقوامی سازشیں ناکام بنائی ہیں ۔ تیس سال پہلے ایک افسر میرے عہدیدار کے پاس آیا اور کہا کہ ملک پر بہت برا وقت ہے اس لئے اس پر توجہ دیں تو جواب دیا کہ آپ کو کیا مسئلہ ہے اگر کوئی مسئلہ ہوا تو میں آپ کے پاس کیوں آؤں گا اب بلوچستان میں شیعہ سنی کو لڑانے کی سازش کی جارہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا جرم کیا ہے پاکستان کی بات کرتے ہیں ، جمہوریت ، پارلیمنٹ ، اسلام ، اسلامی تہذیب اور اسلامی اقدار کی بات کرتے ہیں مگر ان تمام مقاصد کیلئے اعتدال اور آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر فروغ دے رہے ہیں لیکن پھر کیوں دشمن ہیں کیا ہمارا جرم ہے کہ ہم کیوں پارلیمنٹ ، آئین کی بات کرتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ عالمی دنیا ملک کو دہشتگرد ، پریشان دیکھنا چاہتی ہے ۔ آج میری بات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے کوئی بڑا افلاطون سمجھتا ہے لیکن واضح کردیں کہ عالمی ایجنڈا صرف یہی ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے کیونکہ انہوں نے کہا کہ ملک کے تمام مکاتب فکر کے ادارے اس آئین پارلیمنٹ پر متفق ہیں تو یہ جرم نہیں ہے اس پر کسی کا کردار ضرور ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر پانچ لوگ بندوق اٹھالیں تو وہ مذہبی انتہا پسند ہیں مذہبی لوگ ہیں لیکن اگر کوئی آئین ، جمہوریت کے تحت اسلام کی بات کرے تو کیوں اس جانب توجہ نہیں دی جاتی میڈیا بھی ایسے لوگوں کو اس لیے کوریج نہیں دیتا کیوں کہ عالمی ایجنڈے کے تحت ایسا ہو رہا ہے کہ اسلام کی منفی تصویر لوگوں کے سامنے پیش کی جائے ۔

انہوں نے کہا کہ تمام مسالک کو اکٹھا کیا جائے وہ آئین بتایا جائے کہ یہ کس کی ضرورت ہے شیعہ سنی ، دیو بندی ، بریلوی کو لڑایا جائے ۔ بلوچستان میں ایک ڈپٹی کمشنر آکر کہتا ہے کہ ایک عالم دین کو تقریر کروانے دیں ہمیں پتہ چلا کہ وہ فرقہ ورانہ تقریر کرتا ہے اس لئے اس کو تقریرسے منع کردیا جس پر لوگ ناراض ہوجاتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی یونیورسٹی میں اسرائیلی سٹال لگائے جارہے ہیں ان چیزوں کا ہم نے نوٹس لیا ہے جبکہ ادارہ کہتا ہے کہ یہ انفرادی فعل ہے افسوس کیوں اس پر آنکھیں بند کرلی گئیں ہمیں اس پہلو کو بھی دیکھنا ہوگا کیونکہ ہمارے ملک کی شناخت ہے جس کو کسی صورت نہیں گنوانا چاہتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ مجھ پر اتنے حملے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود میرے کارکنان تحمل مزاج ہیں اگر ہم اشتعال دلاتے تو پورے کوئٹہ کو آگ لگ جاتی لیکن ہم نے ہمیشہ تحمل مزاجی کو فروغ دیا۔ انہوں نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو وزیراعظم بلائیں ہمیں ملک اور امت مسلمہ کے لیے بات کرنا ہوگی، انہوں نے کہا کہ اب بھی پاکستان کی جانب سے اسلامی دنیا کو یقین ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دھرنے اس لئے دیئے گئے کہ ہم مسئلہ فلسطین پر موثر آواز بلند نہ کرسکیں اور اس ملک کو کھیل تماشوں میں الجھا دیا جائے ، انہوں نے کہا کہ قرارداد منظور کرنے پر میں ایوان کا مشکور ہوں ۔