مولانا فضل الرحمن پر ہونے والے خود کش حملے کیخلاف مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور ،قومی اسمبلی میں منظور شدہ قرارداد میں واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کرکے رپورٹ ایوان میں پیش کرنے اور متاثرین کو معاوضہ دینے کا مطالبہ ، خورشید شاہ نے مولانا فضل الرحمن پر حملہ کوجمہوریت اور ملک کے امن پر حملہ قرار دیدیا، ایم کیو ایم کا دہشتگردوں کی پناہ گاہیں ختم کرنے کے اقدامات کا مطالبہ،بلوچستان دہشتگردی کا مرکز بن چکا ہے،خاص کمیونٹی کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے ،اعجازالحق،ہمیں کس جرم کی سزا دی جارہی ہے؟ مولانا پر تین حملے ہوچکے ہیں مگر آج تک حقائق سے آگاہ نہیں کیا گیا وزیر داخلہ نے رابطہ تک نہیں کیا، مولانا عبدالغفور حیدری، مولانا فضل الرحمن پر حملے کی مذمت کرتے ہیں مولانا کی جماعت مذہبی لحاظ سے اس قوم اور جمہوریت کی خدمت کی ہے ،خواجہ آصف

منگل 28 اکتوبر 2014 08:15

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔28اکتوبر۔2014ء) قومی اسمبلی نے جمعیت علماء اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن پر ہونے والے خود کش حملے کیخلاف مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی ہے جس میں اس واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کرکے رپورٹ ایوان میں پیش کرنے اور متاثرین کو معاوضہ دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ قرارداد پیر کو ایوان میں وزیرمملکت آفتاب شیخ نے پیش کی۔

قبل ازیں نکتہ اعتراض پر بحث کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے مولانا فضل الرحمن پر حملہ کوجمہوریت اور ملک کے امن پر حملہ قرار دے دیا ، ایم کیو ایم نے مطالبہ کیا ہے کہ افسوس ملک میں دہشتگردوں کی پناہ گاہیں ہیں جنہیں ختم کرنے کے اقدامات کئے جائیں ، جماعت اسلامی نے مطالبہ کیا کہ ہمیں اب اپنے دشمنوں کو پہچاننا ہوگا، اعجاز الحق نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان دہشتگردی کا مرکز بن چکا ہے ایک خاص کمیونٹی کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے ، مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ بتایا جائے کہ ہمیں کس جرم کی سزا دی جارہی ہے کیوں ہمیں مجبور کیاجارہا ہے مولانا پر تین حملے ہوچکے ہیں مگر آج تک حقائق سے آگاہ نہیں کیا گیا وزیر داخلہ نے اس سانحہ کے بعد رابطہ تک نہیں کیا، انٹیلی جنس ادارے بتائیں کیوں دہشتگرد خود کش حملہ آور پکڑے نہیں جاتے جند اللہ بارے بتایا جائے کہ یہ کوئی تنظیم ہے یا فرضی نام ہے ۔

(جاری ہے)

پیر کے روز نکتہ اعتراض پر قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) پر ہونے والے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ مولانا پر ہونے والا حملہ غیر ملکی سازش ہے اور یہ سازش وہی عناصر کررہے ہیں جو ملک میں استحکام نہیں چاہتے ۔ حکومت سے استدعا ہے کہ اس معاملے پر توجہ دی جائے اور انٹیلی جنس اداروں کو تیز کیا جائے اور ان لوگوں تک پہنچا جائے جو بیرونی سازشوں کا حصہ بن کر ملک کو غیر مستحکم کرنے جارہے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی جانب سے اس حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور یقین دلاتے ہیں کہ اپوزیشن جے یو آئی ف کے ساتھ رہے گی ۔ متحدہ قومی موومنٹ کے پارلیمانی لیڈر عبدالرشید گوڈیل نے مولانا فضل الرحمن پر ہونے والے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایسی پناہ گاہیں اس ملک میں ہیں جن کو مختلف مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں ان کیخلاف صف آراء ضرور ہونا ہے لیکن کس طرح ہوسکتے ہیں جب یہ لوگ ہمارے ہاں موجود ہیں ۔دہشتگردی وہیں جڑیں پکڑتی ہے جہاں بھوک و افلاس ہو ۔سیاستدانوں اور لیڈروں کو بھی چاہیے کہ دہشتگردوں کو نکال باہر کریں اور ان لوگوں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے کریں ۔ جماعت اسلامی کے پارلیمانی سربراہ انجینئر طارق اللہ نے مولانا فضل الرحمن پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بیرونی سازش کا حصہ ہے او ملک میں خراب حالات پیش کرنے کی سازش ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اب تک بہت سے رہنما اور لوگ خود کش حملوں میں شہید ہوچکے ہیں اب اپنے دشمنوں کو پہنچانا ہوگا ۔جماعت اسلامی کے سابق امیر مولانا اعظم خان ایک محب وطن شخص تھے جنہیں بنگالی حکومت نے عمر قید کی سزا پاکستان کی محبت کے باعث سنائی کیوں کہ انہوں نے مکتی باہنی کیخلاف آواز اٹھائی تھی مگر افسوس حکومت پاکستان کی طرف سے کوئی مذمت تک نہیں کی گئی ۔

ایوان سے استدعا ہے کہ مولانا اعظم کے لیے دعائے مغفرت کرائی جائے ۔ مسلم لیگ ضیاء کے سربراہ اعجاز الحق نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن پر تیسرا حملہ ہورہا ہے جس کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان دہشتگردی کا حب بن گیا ہے اور ایک خاص کمیونٹی کوبھی مسلسل ٹارگٹ کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔بھارت پاکستان میں شیعہ سنی فسادات کروانا چاہتا ہے اور بلوچستان کی صورتحال کو مزید خراب کرنا چاہتا ہے ۔

اس بات کا انکشاف خود بھارتی سابق آرمی چیف نے بھی اپنی کتاب میں کیا ہے۔ اس موقع پر پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے رکن قومی اسمبلی عبد الافتخار نے بھی مولانا فضل الرحمن پر ہونے والے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے ۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما اور وزیر مملکت عبدالغفور حیدری نے مولانا فضل الرحمن پر ہونے والے حملے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مولانافضل الرحمن پر ہونے والا تیسرا حملہ ہے اس سے قبل دو جان لیوا حملے کرائے گئے،اس وقت مولانا فضل الرحمن کے تمام مکاتب فکر کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کردیا تھا کہ بندوق کی نوک پر شریعت کا مطالبہ درست نہیں جس پر ہم پر حملے ہوئے ان دہشتگردوں نے نشانہ بنایا جن کی سرپرستی امریکہ کررہا ہے لیکن 23اکتوبر 2014ء کو ہونے والا حملہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ یہ حملہ کس نے اور کیوں کیا ہے ؟ کیونکہ طالبان نے بھی اس حملے سے غیر جانبداری کا مظاہرہ کیا ہے اور ایک فرضی نام جند اللہ بارے کہا گیا کہ اس نے یہ حملہ کیا ہے،ہم تعین کررہے ہیں کہ جند اللہ نامی تنظیم کاوجود بھی ہے اس اس کا صرف نام استعمال کیا گیا ۔

انہوں نے کہا کہ آج تک مولانا پر ہونے والے حملوں میں ملوث افراد کو گرفتار نہیں کیاگیا اور نہ ہی حقائق سے ہم کو آگاہ کیاگیا۔پانچ دن گزرنے کے باوجود وزیر داخلہ نے رابطہ تک نہیں کیا حالانکہ وزیر داخلہ خود انٹیلی جنس اداروں کے سربراہ ہیں لیکن ان کی جانب سے مکمل بے حسی چھائی ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ انٹیلی جنس ادارے کیوں خود کش حملہ آوروں کو نہیں پکڑتے بتایا جائے اس وقت ملک کو کس جانب دھکیلا جارہا ہے۔

یہ دہشتگرد تنظیم جند اللہ ہے یا کوئی اداروں سے کوئی پوشیدہ نہیں ہے ۔ ہم اسلامی تہذیب کو بچانے کے لیے اور شعوری اقدار کیلئے کسی سے پیچھے نہیں ہیں ہمیں بتایا جائے کہ ہماری قیادت کا کیا جرم ہے میں اس حد تک کیوں لے جایا رہا ہے ہم بھی اسلحہ اٹھالیں ۔ وفاقی وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ نے مولانا فضل الرحمن پر ہونے والے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ معلوم نہیں کون لوگ جمہوریت کے دشمن ہیں اور ایک بہترین سیاستدان کے پیچھے لگے ہوئے ہیں اس بارے جاننے اور ان عوامل کی بیخ کنی کی ضرورت ہے ۔

وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب نے مولانا فضل الرحمن پر ہونے والے حملے کیخلاف قرارداد مذمت پیش کرتے ہوئے کہا کہ معزز ایوان مولانا فضل الرحمن پر ہونے والے حملے کی شدید مذمت کرتا ہے اور یہ جمہوری و سیاسی بساط لپیٹنے کی سازش کی جارہی ہے انہوں نے کہا کہ ایوان مطالبہ کرتا ہے کہ جوڈیشل انکوائری کرائی جائے اس کی رپورٹ ایوان میں پیش کی جائے اور واقعہ میں شہید ہونے والے افراد کے لواحقین کو معاوضہ دیا جائے بعد ازاں قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی ۔

نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن پر حملے کی مذمت کرتے ہیں مولانا کی جماعت مذہبی لحاظ سے اس قوم اور جمہوریت کی خدمت کی ہے ۔ مولانا فضل الرحمن کی نہ زبان میں شدت اور نہ ہی سیاست میں وہ تو قوم کا اثاثہ ہیں شدت پسندی کی وجہ سے ہماری کوتاہیاں ہیں جو کئی صدیوں سے چلی آرہی ہیں ڈی چوک میں جو کچھ ہورہا ہے یہ سارے ان لوگوں کے بین الاقوامی سازش کا حصہ ہیں جو ہماری بدقسمتی ہے جب تک ہم معاشی طور پر ترقی نہیں کرتے تب تک ترقی نہیں کرسکتے ہیں معاشی ترقی حکومت یا اکیلے اپنا پارٹی نہیں کرسکتے اس میں تمام قوم ساتھ ہوگی تو ممکن ہے کشمیر میں اجتماع کرکے سرینگر اور پوری دنیا کو کون پیغام دیتا ہے لیکن یہ خوش آئند بات ہے اس مسئلے کو پارلیمنٹ میں حل کیاجارہا ہے نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے آزاد رکن اسمبلی ملک عامر ڈوگر نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن پر حملے سمیت تمام سیاسی قائدین پر حملے کی مذمت کرتے ہیں اور اپنے حلقے اور پاکستان تحریک انصاف کا بالخصوص شکر گزار ہوجن کی وجہ سے یہاں پر ہوں میں تبدیلی کے نعرہ پر منتخب ہوکر آیا ہوں میں ایک جمہوری اور سیاسی سوچ لیکر آیا ہوں لیکن موجودہ حکومت کی ڈیڑھ سال سے کوئی کارکردگی نہیں ہے قوم مایوس ہے اور اس پارلیمنٹ سے امیدیں وابستہ ہیں مجھے اپنے جنوبی پنجاب کے عوام نے منتخب کیا ہے میری خواہش ہے کہ ایوان سرائیکی صوبے کی قرارداد منظور کروا کے ایک نیا صوبہ بنائے ۔