اسمبلیوں سے مستعفی ارکان میں سے کسی کا استعفیٰ واپس نہیں لیا جائے گا ، سپیکر قومی اسمبلی کے سامنے 29 اکتوبر کو پیش ہو کر استعفوں کی تصدیق کرائی جائیگی ، آ ئندہ تمام ضمنی انتخابات کا بائیکاٹ ہوگا ، محرم کے بعد ہر ہفتے میں دو جلسے کئے جائیں گے، 30 نومبر کو اسلام آباد کے دھرنے کی حکمت عملی کی تیاری کیلئے کمیٹی تشکیل ، مولانا فضل الرحمن کے دھرنے میں شریک خواتین بارے شرمناک بیانات اور ان پر ہونیوالے خود کش حملے کی مذمت،تحریک انصاف کا دھرنا وزیراعظم کے استعفے تک ختم نہیں ہوگا،پاکستان تحریک انصاف کی کور کمیٹی کا چیئرمین عمران خان کی زیر صدارت اجلاس ، ملکی سیاسی صورتحال کے تناظر میں اہم فیصلے ،پارٹی کی سیکرٹری اطلاعات ڈاکٹر شیریں مزاری کی اجلاس میں کیے گئے فیصلوں بارے میڈیا بریفنگ

اتوار 26 اکتوبر 2014 09:18

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔26اکتوبر۔2014ء) پاکستان تحریک انصاف نے اپنے مستعفی ارکان کے استعفے واپس نہ لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے 29 اکتوبر کو استعفوں کی تصدیق کیلئے تمام ارکان کے ایک ساتھ استعفوں کی تصدیق کیلئے سپیکر آفس جانے کا فیصلہ کیا ہے‘ 30 نومبر کو اسلام آباد میں ایک بار پھر دھرنے کی کال کے فیصلے کی بھی توثیق۔ پی ٹی آئی آئندہ ہونے والے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات میں بھی حصہ نہیں لے گی تاہم اس کا فیصلہ حلقہ وار صورتحال کے جائزے کے بعد کیا جائے گا۔

یہ فیصلہ ہفتہ کو یہاں تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے اجلاس میں کئے گئے۔ کور کمیٹی کا اجلاس پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس کے بعد فیصلوں سے میڈیا کو آگاہ کرتے ہوئے پی ٹی آئی کی مرکزی سیکرٹری اطلاعات شیریں مزاری نے کہا کہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ تحریک انصاف کا ڈی چوک میں جاری دھرنا وزیراعظم کے استعفے تک موخر یا ختم نہیں ہوگا۔

(جاری ہے)

طاہرالقادری کے دھرنے کے خاتمے سے پی ٹی آئی کو کوئی فرق نہیں پڑا کیونکہ ہمارا اپنا ایجنڈا اور پروگرام ہے اور ہم اس کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان کے دھرنے سے ہمارے کاز کی سپورٹ ضرور ہورہی تھی لیکن ہمارے اور ان کے مقاصد الگ الگ تھے۔ پاکستان عوامی تحریک نے 10 اگست کو دھرنے کا اعلان کیا جبکہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے گذشتہ سال سردیوں میں ہی اعلان کردیا تھا کہ اگر حکومت نے چار حلقے کھولنے ور دھنادلی کی تحقیقات پر آمادگی ظاہر نہ کی تو تحریک انصاف عوام کو سڑکوں پر لے آئے گی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف نے حتمی طور پر فیصلہ کرلیا ہے کہ ہم اب دوبارہ موجودہ پارلیمنٹ کا حصہ نہیں بنیں گی۔ ہمارے ارکان مستعفی ہوچکے ہیں اور اب کوئی رکن پارلیمنٹ میں واپس نہیں جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے تمام ارکان 29 اکتوبر کو ایک ساتھ سپیکر آفس جائیں گے اور اپنے استعفوں کی تصدیق کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ کور کمیٹی کے اجلاس میں 30 نومبر کو اسلام آباد میں ملک بھر میں دھرنے کی کال کے فیصلے کی توثیق کی گئی۔

30 نومبر کو چاروں صوبوں کے عوام کے قافلے اسلام آباد میں جمع ہوکر حکمرانوں کو رخصت کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ عاشورہ کے بعد ہر ہفتے میں مختلف شہروں میں دو جلسے کریں گے اور بار بار عوام کو دھاندلی اور ان کے حق نمائندگی کے چوری ہونے بارے آگاہ کرتے رہیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم مولانا فضل الرحمن پر قاتلانہ حملے کی مذمت کرتے ہیں۔

یہ حکومت کی ناکامی ہے۔ حکومت کو تمام سیاسی قائدین کو تحفظ فراہم کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اس کیساتھ ہی ہم یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن نے دھرنے کے حوالے سے خواتین کیخلاف جو بیان دیا ہے وہ انتہائی شرمناک ہے۔ خواتین کیخلاف بیان ان کی گندگی ذہنیت کی عکاسی ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر حکومت دھاندلی والے حلقے نہیں کھولتی تو اس سے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں اس صورت میں مذاکرات محض وقت کا ضیاع ہوگا۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف ضمنی انتخابات میں حصہ نہیں لی گی۔ جاوید ہاشمی کیخلاف عامر ڈوگر کی حمایت کی وجہ جاوید ہاشمی کی پارٹی قیادت کیخلاف بغاوت اور غداری تھی۔ ضمنی انتخابات میں کسی کو سپورٹ بھی نہیں کریں گے تاہم حلقہ وار جائزے کے بعد ہی فیصلے کئے جائیں گے۔