وفاقی حکومت افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے نئے معاہدے پر نظر ثانی کے لئے آمادہ ہو گئی ،افغان ٹرانزٹ ٹریڈ میں مشکلات برقرار،نئے معاہدے کے بعدٹرانزٹ ٹریڈ کا70 فیصد کارگوایران منتقل ہوگیاہے،ذرائع

پیر 20 اکتوبر 2014 08:43

اسلا م آ با د(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔20اکتوبر۔2014ء) افغان ٹرانزٹ ٹریڈ میں مشکلات برقرار ہیں، نئے اے ٹی ٹی معاہدے کے بعد افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا70 فیصد کارگوایران کی بندرعباس منتقل ہوگیا۔ٹرانزٹ ٹریڈ کے کاروبار سے منسلک بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ متعدد پیچیدگیوں اور مسائل کے باوجود افغان تاجرپاکستانی بندرگاہوں کے توسط سے ترجیحی بنیادوں پرتجارت کے خواہشمند ہیں اور افغان تاجروں کی اس دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے پاک افغان جوائنٹ چیمبرآف کامرس مستعدی کے ساتھ کام کر رہا ہے، پی اے جی سی سی آئی کے اس حوالے سے ستمبر میں وزارت تجارت کے اعلیٰ حکام کے ساتھ 2 اجلاس بھی ہوئے جنہیں دوران اجلاس نئے اے ٹی ٹی معاہدے میں مشکلات کے حوالے سے آگاہ کیا گیا اور ان مشکلات کی نشاندہی کے بعد وفاقی حکومت نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے اس نئے معاہدے پر نظرثانی کی یقین دہانی کرائی۔

(جاری ہے)

ذرائع نے بتایا کہ اجلاس میں تجویز دی گئی کہ ایس آر او نمبر 121 میں ترمیم کرکے پاکستان ریلویز کو فعال بناتے ہوئے کراچی سے پشاور تا چمن ریلوے کے ذریعے کھلامال لانے کی اجازت دی جائے۔ اجلاس میں تجویز دی گئی کہ مذکورہ کنٹینرز کو وزارت تجارت اورایف بی آرسے ڈی اسٹفنگ کی اجازت دی جائے تاکہ یہ مال پہلے کی طرح درست حالات میں پشاور اورچمن پہنچ سکے جس کے بعد انہیں ہیوی ٹرکوں کے ذریعے کسٹم کی نگرانی میں سرحد پارکیا جائے۔

اس ضمن میں پاک افغان جوائنٹ چیمبرکے ڈائریکٹر ضیاء الحق سرحدی نے ’ بتایا کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی راہ میں جہاں متعدد پیچیدگیاں ہیں وہاں نیٹو ایساف کنٹینرزکی آمدورفت نے بھی پاک افغان تجارتی سرگرمیوں کوزبوں حالی سے دوچار کردیا ہے۔قومی احتساب بیورو (نیب ) کی جانب سے نیٹوایساف کنٹینرز اسکینڈل سے متعلق جاری تفتیشی عمل میں تاحال کراچی، پشاور اور بلوچستان کے کسی کسٹمز کلیئرنگ فارورڈنگ اور بارڈرز ایجنٹس پر الزامات ثابت نہ ہوسکے جبکہ نیٹو ایساف کنٹینرز اسکینڈل میں نیشنل لاجسٹک سیل (این ایل سی ) اور پاکستان ریلوے کے کسی افسر کو بھی شامل تفتیش نہ کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ سابق ممبر کسٹمز ایف بی آر حافظ محمد انیس مرحوم نے نیٹو ایساف کنٹینرز رپورٹ مرتب کی تھی جس میں 28 ہزار کنٹینرز افغانستان بارڈر کراس کیے بغیر پاکستان میں ہی غائب ہونے کا انکشاف کیا تھا جس پرسپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری نے سوموٹو نوٹس لیتے ہوئے قومی احتساب بیورو کو معاملے کی انکوائری کا حکم دیا تھا، سابق وفاقی ٹیکس محتسب ڈاکٹر شعیب سڈل نے اپنی رپورٹ میں 28 ہزار کے بجائے 7ہزار 922 کنٹینرز کی پاکستان کے اندر گمشدگی کی رپورٹ مرتب کی۔

جس میں واضح کیاگیا کہ غائب ہونے والے نیٹو ایساف کنٹینرز کی تعداد 28 ہزار نہیں، نیب نے ڈاکٹر محمد شعیب سڈل کی رپورٹ پر سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا جس میں کراچی، پشاور اور بلوچستان کے کسٹمز کلیئرنگ فارورڈنگ اور بارڈرز ایجنٹس کو شامل تفتیش کیا گیا حالانکہ ایف بی آر کے سابق چیئرمین عبداللہ یوسف نے 26 اگست 2006کو نوٹیفکیشن کے ذریعے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے کاروبار میں بارڈر ایجنٹس کا کردار ختم کردیا تھا اور کسٹمزقوانین اورایکٹ میں بارڈر ایجنٹ کا کوئی ذکر نہیں ہے لیکن اس کے باوجود نیب نے ان کے خلاف ایف آئی آرز کاٹی ہوئی ہیں اور انہیں شامل تفتیش کیا ہوا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ تقریباً 2 سال کی مدت گزرجانے کے باوجود نیب کسی ایجنٹ کے خلاف ثبوت پیش نہیں کرسکا تاہم خیبر پختونخوا اور چمن کے بارڈرایجنٹس کو ہرماہ پیشیاں بھگتنے کیلیے سندھ ہائی کورٹ اور احتساب عدالت کراچی میں حاضر ہونا پڑتا ہے جس سے نہ صرف انہیں اضافی مالی اخراجات برداشت کرنے پڑ رہے ہیں اور ذہنی اذیت سے بھی دوچارہونا پڑ رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ سابق کلکٹرز کسٹمز پشاور یونس خان کی رپورٹ کے مطابق گمشدہ کنٹینرز کی تعداد صرف 28 سے 30 ہے جبکہ نیب 7ہزار922 کنٹینرز کی انکوائری کر رہا ہے، نیب کے پشاور اور بلوچستان میں دفاتر قائم ہیں لیکن متعلقہ ریجن میں کیسز کی تفتیش اور انکوائری کے بجائے تمام ایجنٹس کو کراچی بلایا جاتا ہے اور 450 ایجنٹس میں سے کسی ایک کی عدم پیشی کی بنا پر کیس کی سماعت آئندہ مدت کے لیے ملتوی کردی جاتی ہے، اس طرح ہر ایجنٹ کو ایک ماہ میں 2 مرتبہ کراچی آنا پڑتا ہے، اس تمام صورتحال سے نیب افسران، ایف بی آر کے حکام اور متعلقہ کسٹمز کلکٹریٹ کو وقتاً فوقتاً آگاہ کیا جاتا رہا لیکن کسٹمز کلیئرنگ، فارورڈنگ اور بارڈر ایجنٹس کو کوئی ریلیف نہیں مل سکا جبکہ نیا اے ٹی ٹی معاہدہ بھی تقریبا سبوتاڑہوچکا ہے۔