داعش میں طالبان کی شمولیت،صرف فنڈ اور حمایت حاصل کرنا ہے،مغربی میڈیا ،طالبان کی پھوٹ سے خطے میں پر تشدد کارروائیوں میں اضافہ ہوگا۔طالبان کا داعش سے وفاداری اوباما کو پریشان کرنے کی ایک چال ہے‘وال سٹریٹ جرنل،طالبان کمانڈروں کی طرف سے دعش میں شمو لیت طالبان گروپ اور ان کے سربراہ ملا عمر کے درمیان تقسیم کو واضح کرتاہے،ٹیلی گراف

جمعہ 17 اکتوبر 2014 09:00

لند ن ، واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔17اکتوبر۔2014ء)طالبان کمانڈروں کی طرف سے دولت اسلامیہ سے وفاداری کے اعلان کے بعد مغربی ذرائع بلاغ نے لکھا کہ یہ پاکستان میں داعش کا پہلا قدم ہے۔طالبان کے درمیان دھڑے بندی میں اضافہ اور کشیدہ صورت حال پیدا ہوگی،داعش سے وفاداری کا اعلان صرف فنڈ اور حمایت حاصل کرنا ہے۔طالبان کی پھوٹ سے خطے میں پر تشدد کارروائیوں میں اضافہ ہوگا۔

طالبان کا داعش سے وفاداری اوباما کو پریشان کرنے کی ایک چال ہے۔ امریکی اخبار”وال اسٹریٹ جرنل“ لکھتا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان شاہد اللہ شاہد اور اس تنظیم کے پانچ دیگر اہم کمانڈروں نے شدت پسند گروپ دولت اسلامیہ سے وفاداری اور اس کے سربراہ ابوبکر البغدادی کی خلافت کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

(جاری ہے)

سات قبائلی ایجنسیوں میں سے تین کمانڈروں کا داعش کی طرف جانا طالبان میں پھوٹ کو واضح کرتا ہے۔

عراق اور شام کی طرح ملا عمر اور ابو بکر بغدادی کے حمایتیوں کے درمیان لڑائی شروع ہونے کا خدشہ ہے۔ نئے گروپ کے آنے سے کشیدگی میں اضافہ ہو گا،تقسیم بھی بڑھے گی۔حکیم اللہ محسود کی ڈورن حملے میں ہلاکت کے بعد طالبان کے اندر لڑائی جاری ہے۔

رواں سال صرف دو ماہ میں طالبان کے پچاس اہم رہنما آپس کی لڑائی میں مارے جا چکے۔اگست میں کئی اہم رہنما طالبان گروپ سے علیحدگی اختیار کر کے نیا گروپ بنا چکے۔

طالبا ن کے خلاف جاری فوجی آپریشن میں ایک ہزار عسکریت پسند ہلاک ہو چکے۔اب چھ رہنماوں کا جانا طالبان کو مزید کمزور کرے گا۔خطے میں تشدد میں اضافے کا امکان ہے۔برطانوی اخبار”ٹیلی گراف “ لکھتا ہے کہ طالبان کمانڈروں کی طرف سے یہ اعلان طالبان گروپ اور ان کے سربراہ ملا عمر کے درمیان تقسیم کو واضح کرتاہے۔مولانافضل اللہ کی تحریک طالبان پاکستان گروپ نے داعش کی حمایت کا اعلان کیا ،بیعت کا نہیں۔

طالبان قبائلی علاقوں میں فوج کے محاصرے میں ہیں ان کے خلاف جاری کارروائی سے طالبان گروپ میں مزید انتشار کو گہرا کردیااور افغانستان میں ملا عمر کی فورسز کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔سابق یورپین یونین کے نائب نمائندے اور طالبان پر معروف ماہر کے مطابق طالبان کا داعش میں شمولیت کا اعلان فنڈنگ اور حمایت کے لئے ایک اپیل ہے۔طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف پاکستانی فوج کی کارروائیوں سے ان کی فنڈنگ متاثر ہے۔

ان کے اعلان سے انہیں داعش یا کسی دوسری عسکری تنظیم سے فنڈ ملنے کے راستے کھل جائیں گے جب وہ رقم چھینتے یا تاوان لیتے ہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں جہادی کارروائیوں کے لئے ضرورت ہے۔برطانوی اخبار”فنانشل ٹائمز“ لکھتا ہے کہ کہ مغربی سفارت کار کہتے ہیں کہ طالبان کا داعش میں شمولیت کا اعلان ایک مضبوط یاد دہانی ہے کہ عراق اور شام کا یہ شدت پسند گروپ اسلامی دنیا کے کسی بھی حصے میں اپنا اتحادی بنا سکتا ہے۔

یہ لوگ وسیع جغرافیائی رسائی کے خواہاں ہیں۔پاکستان قدرتی طور پران کے نقطہ نظر میں پورا اترتا ہے۔ تاہم پاکستانی انٹیلی جنس حکام نے خبردار کیا کہ یہ گروپ پاکستان میں اپنی راہ ہمورا کر رہا ہے۔ سینئر حکام کے مطابق اوباما کے بے نیند راتوں کیلئے صرف ایک پروپیگنڈا چال ہے۔ماہرین کے مطابق یہ داعش کا پاکستان میں پہلا قدم ہے۔اگر داعش نے ان طالبان رہنماوں کی وفاداری پر یقین کر لیا تو یہ پاکستان کے لئے سنگین صورت حال ہوگی۔

متعلقہ عنوان :