اپوزیشن سیاسی جرگہ نے حکومت اور احتجاجیوں میں ڈیڈلاک کو ختم کرنے کیلئے وزیراعظم کو خط لکھ دیا،سپیکر قومی اسمبلی سے تحریک انصاف کے استعفے مسترد اورعمران خان سے جمہوریت کی مضبوطی کی خاطر استعفے واپس لینے کا مطالبہ، اگر استعفے منظور ہوگئے تو بڑا سیاسی بحران آئے گا، معاملہ یہاں نہیں رکے گا،حکومت انتخابی اصلاحات ،دھاندلی کی تحقیقات کیلئے عدالتی کمیشن سمیت دیگر متفقہ معاملات پر عملی اقدامات اٹھائے ،سراج الحق ، سیاسی رہنماؤں کو غیر شائستگی سے پرہیز کرنا چاہئے، مسائل کو مذاکرات سے حل کرنا ہوگا،سیاست میں کوئی حرف آخر نہیں ہوتا،فریقین انا پرستی اور ضد کو چھوڑے ،حکومت بڑے پن کا مظاہرہ کرے،جرگہ کی کوششوں سے ملک میں مارشل لاء کا خطرہ ٹل گیا ہے ، رحمان ملک

جمعرات 16 اکتوبر 2014 08:51

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔16اکتوبر۔2014ء)اپوزیشن کے سیاسی جرگہ نے حکومت اور احتجاجیوں میں ڈیڈلاک کو ختم کرنے کیلئے وزیراعظم کو خط لکھ دیا،سپیکر قومی اسمبلی سے تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کے استعفے مسترد کرنے اورعمران خان سے جمہوریت کی مضبوطی کی خاطر استعفے واپس لینے کا مطالبہ کردیا،سراج الحق نے کہا ہے کہ اگر استعفے منظور ہوگئے تو بڑا سیاسی بحران آئے گا اور معاملہ یہاں نہیں رکے گا،حکومت انتخابی اصلاحات ،دھاندلی کی تحقیقات کیلئے عدالتی کمیشن سمیت دیگر متفقہ معاملات پر عملی اقدامات اٹھائے جبکہ رحمان ملک نے کہا ہے کہ سیاسی رہنماؤں کو غیر شائستگی سے پرہیز کرنا چاہئے اور اپنے لب ولہجہ کو پارلیمانی بنایا جائے،ملک کی موجودہ صورتحال سے دشمن فائدہ اٹھا سکتا ہے،ہمیں مسائل کو مذاکرات سے حل کرنا ہوگا،سیاست میں کوئی حرف آخر نہیں ہوتا،فریقین انا پرستی اور ضد کو چھوڑے ،حکومت بڑے پن کا مظاہرہ کرے،جرگہ کی کوششوں سے ملک میں مارشل لاء کا خطرہ ٹل گیا ہے اور سیاسی بحران بھی بڑا حادثہ بننے سے بچ گیا ہے ۔

(جاری ہے)

۔بدھ کی شام اپوزیشن کے سیاسی جرگے کا اجلاس امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی سربراہی میں سابق وزیرداحلہ رحمان ملک کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا،اجلاس میں ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال،افغانستان اور لائن آف کنٹرول پر کشیدہ صورتحال اور وفاقی دارالحکومت میں جاری دھرنوں کے معاملات زیر بحث آئے۔اس موقع پر جرگہ اجلاس میں جی جی جمال،سینیٹر حاصل بزنجو اور سینیٹر کلثوم پروین بھی موجود تھیں۔

اجلاس میں حکومت ،پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے درمیان مذاکرات کے ڈیڈلاک کے خاتمے کیلئے تجاویز پر غور کیا گیا۔اس موقع پر تمام اراکین کے اتفاق رائے سے وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا اور ایک متفقہ لائحہ عمل طے کیا گیا۔ذرائع کے مطابق خط میں تجویز دی گئی ہے کہ وزیراعظم اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرے اور جرگہ کی طرف سے دی گئی تجاویز پر غور کرکے معاملہ حل کرائیں جبکہ جرگہ سے ون آن ون ملاقات کرکے تفصیلی تبادلہ خیال کیا جائے۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ وزیراعظم سے ملاقات کے بعد یہ جرگہ براہ راست عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری سے ملاقات کرے گا۔

بعد ازاں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے جرگہ کے سربراہ سراج الحق نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں تینوں فریقوں سے کہتے ہیں کہ وہ معاملے کو حل کرنے کیلئے تعاون کریں،یہ کسی کی ناکامی نہیں بلکہ اگر معاملات مذاکرات سے حل ہوں تو تینوں فریقوں کی کامیابی ہوگی،ملکی معاملات پر ہمیں اپنی رائے اور انا کو قربان کرنا چاہئے،سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے پہلے بھی ہماری درخواست پر پی ٹی آئی کے استعفے منظور نہیں کئے اب بھی ہمارا مطالبہ ہے کہ سیاسی مستقبل کی خاطر اور جمہوریت کی مضبوطی کیلئے استعفوں کو مسترد کردیا جائے جبکہ عمران خان بھی بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے استعفے واپس لیں۔

انہوں نے جاوید ہاشمی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے سابق صدر بھی کہہ چکے ہیں کہ اکثر اراکین نے اپنے استعفے بخوشی نہیں دئے۔سراج الحق نے کہا کہ معاملہ صرف32استعفوں کا نہیں اگر یہ منظور کرلئے گئے تو اس سے مزید مسائل جنم لیں گے۔اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف سے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان خوش آئند ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر تمام سیاسی جماعتیں جمہوری راستہ اختیار کریں تو نہ صرف یہ قوم کی بھلائی ہے بلکہ کسی بھی حادثے سے بچا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی میں تمام سیاسی جماعتوں کا اپنا ایک مؤقف ہے لیکن سیاسی بحران کے حل کیلئے تمام اپوزیشن اکٹھی ہے۔انہوں نے کہا کہ سیاسی جرگہ کے 37اجلاس ہوچکے ہیں،اس میں ہمیں کافی کامیابی ہوئی ہے،پہلے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے کارکنان کافی جذباتی تھے جبکہ سرکاری عمارات پر بھی براجمان تھے اور جرگہ کی کوششوں سے پارلیمنٹ کا لان خالی ہوا جبکہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک بھی اب دھرنے سے جلسوں کی طرف آگئی ہے جو کہ ایک مثبت اقدام ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے پہلے بھی کہا کہ حکومت کے پاس دینے کیلئے بہت کچھ ہے،اب بھی حکومت کو بڑے پن کا مظاہرہ کرنا چاہئے کیونکہ مذاکرات سے ہی مسئلے حل ہوں گے،دیگر فریقین کو بھی لچک کا مظاہرہ کرنا چاہئے،اب یہ تینوں فریقین پر منحصر ہے کہ وہ معاملے کو کتنا جلدی حل کرتے ہیں۔اس موقع پر رحمان ملک نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان تحریک انصاف مستعفی ہوگئی تو اس سے جمہوریت کو نقصان ہوگا،پیپلزپارٹی کے چےئرمین آصف زرداری بھی چاہتے ہیں کہ تحریک انصاف اسمبلی میں بیٹھ کر اپنا کردار ادا کرے۔

انہوں نے کہا کہ دونوں جماعتوں کے لچک دکھانے پر مشکور ہیں۔رحمان ملک کا کہنا تھا کہ سیاست میں فتح یا شکست نہیں ہوتی بلکہ عوام کی رائے دیکھی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ جرگہ نے ڈیڈلاک کے خاتمے کیلئے وزیراعظم نوازشریف کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ خط وزیراعظم ہاؤس تک آج پہنچا دیا جائے گا،البتہ اس خط کو ہم عیاں نہیں کریں گے اگر حکومت خود اس کو پبلک کرنا چاہے تو یہ اس کی صوابدید ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی جرگہ معاملات کو حل کرنے کیلئے وزیراعظم سے ون ٹو ون ملاقات کرنا چاہتا ہے جبکہ اس کے بعد دونوں احتجاجی جماعتوں کے رہنماؤں سے بھی براہ راست مذاکرات کریں گے۔رحمان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ سیاسی قائدین میں غیر شائستگی نہیں آنی چاہئے اور اپنے سیاسی حریفوں کے ساتھ منفی رویہ یا غیر پارلیمانی زبان کا استعمال کرنے سے گریز کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت لائن آف کنٹرول پر بھارت کی جانب سے فائرنگ ہورہی ہے تو دوسری جانب ڈرون بھی پروازیں کر رہے ہیں،ملک کی موجودہ صورتحال سے دشمن فائدہ اٹھا سکتا ہے،سیاسی قائدین کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔جرگہ کے رکن جی جی جمال نے کہا کہ کوہاٹ میں آئی ڈی پیز وزیر اور اورکزئی کا جرگہ ہوا جس میں آئی ڈی پیز کے مسائل حل کرنے کیلئے پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دینے کا فیصلہ کیا گیا،ہمیں معلوم ہوتے ہی ہم نے قبائلی جرگہ سے رابطہ کیا اور انہیں ملکی امن وامان کی صورتحال پر بریف کیا جس کے بعد انہوں نے اپنے دھرنے کو ملتوی کردیا ہے جو کہ خوش آئند ہے،ہم پاکستان تحریک انصاف اور عوامی تحریک سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ملکی صورتحال کے پیش نظر لچک کا مظاہرہ کرے۔

بعد ازاں صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے سراج الحق نے کہا کہ جن نکات پر خود حکومت نے اتفاق کا اظہار کیا تھا حکومت کو چاہئے کہ الیکشن ریفارم،الیکشن کمیشن کی تشکیل نو،دھاندلی کیلئے عدالتی کمیشن پر عملی اقدامات کئے جائیں جبکہ وزیراعظم میاں نوازشریف نے بھی اپنی تقریر میں اعلان کیا تھا کہ وہ دھاندلی کیلئے عدالتی کمیشن قائم کریں گے لیکن افسوس ابھی تک کوئی اقدام نظر نہیں آرہا۔

ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ شاید یوں سمجھا جاتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ درد ختم ہوجائے گا لیکن ایسا نہ ہو کہ مزید بیماری پھیل جائے اور سیاسی معاملات نزع کی کیفیت اختیار کرلے۔ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ آئین کے اندر وزیراعلیٰ یا وزیراعظم کا استعفیٰ لینے کا طریقہ موجود ہے۔انہوں نے ایک اور سوال پر کہا کہ ہم کسی لالچ کیلئے نہیں بلکہ ملک وقوم کے مفاد کی خاطر جمہوریت کی مضبوطی اور آئین کی بالادستی کیلئے کوشش کر رہے ہیں اور جرگہ کی کوششوں سے ہی اب ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ مارشل لاء کا خطرہ ٹل گیا ہے اور سیاسی بحران بھی بڑا حادثہ بننے سے بچ گیا ہے لیکن اب بھی خدشات باقی ہیں اور ان معاملات کو مذاکرات سے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔