آئین کے آرٹیکل 62-63 کی شق لانے والا خود غاصب تھا‘ خود تو صادق اور امین نہیں تھا مگر دوسروں کو صادق اور امین دیکھنا چاہتا تھا،جسٹس جواد ایس خواجہ ، قوم کو اس کے مقدر کے فیصلے کا علم ہونا چاہئے‘ ہر طرف جھوٹ بولا جارہا ہے‘ بدنامی کیخلاف درخواست دائر کرنا فوج کا حق ہے‘ فوج اور عدلیہ کی تضحیک آئین میں ایک ساتھ رکھی گئی ہے‘ عدلیہ کو روزانہ گالیاں دی جاتی ہیں مگر اس پر کوئی درخواست نہیں آتی‘وزیراعظم نااہلی کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس، فوجی حکمرانوں نے 1973ء کے آئین کا حلیہ ہی بگاڑ دیا‘ عوامی نمائندوں کو قوم سے جھوٹ بولنے کا کوئی حق نہیں‘ ووٹرز سے جھوٹ بولنا سیاستدانوں کا وطیرہ ہے‘ جو وعدے پورے نہیں ہوسکتے انہیں منشور میں کیوں ڈالا جاتا ہے،جسٹس دوست محمد خان، اسحق خاکوانی نے تحریک انصاف کی جانب سے دلائل مکمل کرلئے،سماعت آج بھی جاری رہے گی

جمعرات 16 اکتوبر 2014 08:41

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔16اکتوبر۔2014ء) سپریم کورٹ میں وزیراعظم نواز شریف نااہلی کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل 62-63 کی شق لانے والا خود غاصب تھا‘ جو خود تو صادق اور امین نہیں تھا مگر دوسروں کو صادق اور امین دیکھنا چاہتا تھا‘ چاہتے ہیں کہ قوم کو اس کے مقدر کے فیصلے کا علم ہونا چاہئے‘ ہر طرف جھوٹ بولا جارہا ہے‘ بدنامی کیخلاف درخواست دائر کرنا فوج کا حق ہے‘ فوج اور عدلیہ کی تضحیک آئین میں ایک ساتھ رکھی گئی ہے‘ عدلیہ کو روزانہ گالیاں دی جاتی ہیں مگر اس پر کوئی درخواست نہیں آتی‘ آرٹیکل 62 ون ایف کی زبان اٹھارہویں ترمیم کے بعد تبدیل ہوچکی ہے‘ کیا کسی ایک سیاسی جماعت نے منشور میں کئے گئے وعدے پورے کئے‘ منشور میں بہت کچھ لکھا جاتا ہے مگر عمل نہیں کیا جاتا صادق اور امین کا تقاضا ہے کہ کوئی نمائندہ عوام سے جھوٹ نہ بولے اور دھوکہ نہ دے جبکہ جسٹس دوست محمد خان نے ریمارکس دئیے کہ فوجی حکمرانوں نے 1973ء کے آئین کا حلیہ ہی بگاڑ دیا‘ عوامی نمائندوں کو قوم سے جھوٹ بولنے کا کوئی حق نہیں‘ ووٹرز سے جھوٹ بولنا سیاستدانوں کا وطیرہ ہے‘ جو وعدے پورے نہیں ہوسکتے انہیں منشور میں کیوں ڈالا جاتا ہے‘ عوام کو صاف پانی تو میسر نہیں باقی وعدے کیسے پورے ہوں گے‘ چھ ماہ میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا وعدہ پورا نہ کرنے والے کیا صادق اور امین ہیں‘ کیا جو سیاسی جماعتیں منشور میں کئے گئے وعدے پورے نہیں کرتیں وہ صادق اور امین کہلا سکتی ہیں‘ ایک پرندہ پھنسانے آئے تھے ممکن ہے کہ 100 پھنس جائیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس بدھ کے روز دئیے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے بدھ کے روز وزیراعظم نااہلی کیس کی سماعت شروع کی تو اس دوران اسحق خاکوانی نے تحریک انصاف کی جانب سے دلائل مکمل کئے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد آرٹیکل 62(1) ایف کی زبان بدل چکی ہے‘ دیکھنا ہوگا کہ عدالت عالیہ نے اس معاملے پر کیا کہا ہے۔

درخواست گزار چاہے تو وزیراعظم کی تقریر کا اصل متن حاصل کرسکتا ہے اس حوالے سے وڈیو بھی پیش کی جاسکتی ہے۔ سپریم کورٹ عملے نے بھی تقریر کا متن سیکرٹریٹ سے حاصل کرنے کی کوشش کی تھی جو نہیں مل سکا۔ اٹارنی جنرل متن پیش کریں۔ اسحق خاکوانی نے کہا کہ انہوں نے اسمبلی سیکرٹریٹ سے رابطہ کیا تھا مگر وہاں سے تقریر نہیں مل سکی۔ آئی ایس پی آر نے جو بیان جاری کیا اس سے وزیراعظم اور وزیر داخلہ کابیان میل نہیں کھاتا۔

وزیراعظم اور وزیر داخلہ صادق اور امین نہیں ہورہے اسلئے وہ نااہل ہوچکے ہیں۔ جسٹس جواد کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی کی کارروائی پبلک پراپرٹی ہے وہ سب کو ملنی چاہئے اور عوام کو بھی علم ہونا چاہئے کہ ان کے مقدر کے فیصلے کہاں ہوتے ہیں؟ اس دوران گوہر نواز سندھو نے عدالت سے استدعاء کی کہ انہیں اردو میں دلائل دینے کی اجازت دی جائے جو عدالت نے دے دی۔

جسٹس جواد نے کہا کہ ہمارے لئے سب سے بڑا مسئلہ انگریزی بنا ہوا ہے۔ سابقہ آقاؤں کی زبان استعمال کرنے سے کئی ابہام پیدا ہوجاتے ہیں سب کو سن کر فیصلہ دیں گے اور یہ فیصلہ اردو میں ہوگا کسی کو اچھا لگے یا برا ہم فیصلہ کردیں گے۔ جسٹس دوست محمد نے کہا کہ آرمی چیف کے بیان کیلئے آئی ایس پی آر کے ترجمان نے سوشل ویب سائٹ پر ٹویٹ کیا‘ کیا یہ ٹویٹ شہادت کے طور پر استعمال ہوسکتی ہے حالانکہ جب بھی کوئی وضاحت دینی ہوتی ہے تو فوج کے ترجمان میڈیا کو بلاتے ہیں اور وضاحت کرتے ہیں مگر اس معاملے میں ایسا نہیں کیا گیا‘ دیکھنا ہوگا کہ وزیراعظم نے آرمی چیف سے ملاقات کے دوران کیا الفاظ استعمال کئے یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ آیا فوج کے ترجمان کا بیان فوج کی ترجمانی تھا یا آرمی چیف کی ترجمانی تھا۔

بادی النظر میں تو یہ آرمی چیف کی ترجمانی تھا۔ ویسے بھی فوج کے سربراہ اپنا موقف پیش کرنے میڈیا کے سامنے نہیں آئے۔ اعلامیہ فوج کیلئے نہیں آرمی چیف کیلئے تھا۔ درخواست گزار نے کہا کہ یہ سیاسی نہیں قانونی معاملہ ہے اور عدالت اس پر فیصلہ دے سکتی ہے اس پر جسٹس دوست محمد خان نے ان سے پوچھا کہ کیا اس سے قبل اس کی کوئی مثال موجود ہے اس پر درخواست گزار نے کہا کہ عدالت اس سے قبل بھی وزرائے اعظم کو نااہل قرار دے چکی ہے۔

جسٹس دوست نے کہا کہ پاک فوج کا ترجمان تمام معاملات کا براہ راست گواہ نہیں ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ عدالت سیاسی حوالے سے اپنی ذمہ داریوں پر چشم پوشی نہیں کرسکتی۔ جسٹس جواد کا مزید کہنا تھا کہ فی الحال ہم درخواستوں کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے پر غور کررہے ہیں۔ سچ اور جھوٹ کو ثابت کرنے کیلئے مسلمہ اصولوں کو سامنے رکھنا ہوگا۔ جسٹس دوست محمد نے درخواست گزار سے کہا کہ کیا آپ کے نزدیک وزیراعظم کا بیان درست نہیں تھا‘ کیا اس حوالے سے ان کے پاس ثبوت ہیں؟ جسٹس جواد نے کہا کہ فکر نہ کریں سب کچھ سامنے آجائے گا۔

کس نے کس سے کیا کہا اس کا پتہ لگانا ضروری ہے۔ آئین میں آرٹیکل 62-63 کی شق لانے والا خود غاصب تھا۔ جسٹس دوست محمد نے کہا کہ دوسروں کو صادق اور امین کے معیار پر تولنے والا خود صادق اور امین نہیں تھا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ صادق اور امین کا تقاضا صرف پارلیمنٹ میں ہی نہیں باہر بھی ہے۔ درخواست قابل سماعت ہوئی تو مزید دلائل دینا ہوں گے۔ جسٹس دوست نے کہا کہ وزیراعظم کے اصل الفاظ سے درست اور غلط کا پتہ چلایا جاسکے گا۔

دیکھنا ہوگا کہ وزیراعظم نے آرمی چیف سے کیا الفاظ استعمال کئے۔ فوج کی بدنامی کا معاملہ بھی زیر غور آئے گا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ بدنامی کیخلاف درخواست دائر کرنے کا حق فوج کو ہو مگر انہوں نے درخواست نہیں دی۔ پہلے یہ ثابت ہوجائے کہ سچ اور جھوٹ کیا ہے۔؟ درخواست گزار کا کہنا تھا کہ فوج کا کردار مشکوک بنانے کی کوشش کی گئی۔ جسٹس جواد نے کہا کہ قوم کیساتھ بہت جھوٹ بولے جارہے ہیں۔

صادق اور امین کا تقاضا ہے کہ کوئی دھوکہ نہ دے اور جھوٹ نہ بولے۔ قوم کے فیصلے بند دروازوں کے پیچھے نہ ہوں‘ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر جھوٹ بولے جارہے ہیں۔ آئین میں تضحیک کے حوالے سے فوج اور عدلیہ کا ساتھ ساتھ ذکر موجود ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اخباری خبر کی بنیاد پر فیصلہ نہیں دے سکتے۔ جس مستعدی سے لوگ یہاں فوج کیلئے آئے ہیں عدلیہ کیلئے نہیں آئے۔

جسٹس دوست نے کہا کہ سیاسی لیڈر کہتے رہے کہ کے پی کے میں چھ ماہ میں بلدیاتی انتخابات کرادیں گے مگر ابھی تک انتخابات نہیں ہوسکے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ عدلیہ کی روزانہ تضحیک ہوتی ہے۔ جسٹس دوست نے کہا کہ ضروریات زندگی کی فراہمی کا وعدہ کرکے ووٹ لئے جاتے ہیں مگر کیا وعدہ پورا نہ کرنا صادق اور امین کے تحت نہیں آتا۔ ایک پرندہ پھنسانے آتے ہیں ممکن ہے 100 پھنس جائیں۔

چھ ماہ میں بلدیاتی انتخابات نہ کرانے والے کیا صادق اور امین ہیں؟ گوہر نواز نے کہا کہ فوج اور عدلیہ کو بدنام کرنے والے بیانات پر پابندی ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ کیا آج تک کسی سیاسی جماعت نے وعدے پورے کئے۔ منشور میں لکھا جاتا ہے مگر اس پر عمل نہیں کیا جاتا۔ یہاں تو عدلیہ کو روزانہ گالیاں دی جاتی ہیں۔ منشور میں وعدے پورے نہ کرنے والی جماعت کیا صادق اور امین ہے؟ عدلیہ کی تضحیک پر کوئی درخواست نہیں دیتا۔

جسٹس دوست نے کہا کہ ووٹرز سے جھوٹ بولنا سیاستدانوں کا وطیرہ ہے۔ جو وعدے پورے نہیں ہوسکتے انہیں منشور میں نہ ڈالا جائے۔ عوام کو صاف پانی میسر نہیں باقی وعدے کیسے پورے ہوں گے۔ فوجی حکمرانوں نے 1973ء کے آئین کا حلیہ ہی بگاڑ دیا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی ہم نے زبردستی حاصل کی ہے۔ قوم کے نمائندوں کو قوم سے جھوٹ بولنے کا کوئی حق نہیں۔

درخواست گزار کے وکیل عرفان قادر نے سپیکر کی رولنگ عدالت میں پیش کی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وزیراعظم کی نااہلی نہیں بنتی اور یہ ان کے اختیار میں نہیں ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ بادی النظر میں آپ کا حق دعویٰ بنتا ہے مگر اس کی سماعت کا طریقہ کار طے کرنا ہوگا۔ اپیل کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کے فیصلے پر دلائل سنیں گے۔ بعدازاں عدالت نے سماعت (آج) جمعرات تک ملتوی کردی۔