پاکستان کے عسکری و خفیہ اداروں کے درمیان رابطوں میں کمی کا فقدان، فاٹامیں طالبان کے دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کا خدشہ،پاکستان کی خراب انسدادِ دہشت گردی پالیسی نے تحریکِ طالبان پاکستان کو مضبوط ہونے کا موقع دیا،فاٹا میں عسکری یونٹس کے ساتھ آئی ایس آئی کا کوئی افسر مستقل تعینات نہیں ، جمہوری نظام کے تسلسل سے ہی تبدیلی ممکن ہے،تبدیلی پاک بھارت امن عمل کیلئے بھی مددگار ثابت ہو گی؛نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی واشنگٹن کے ڈائریکٹر ساؤتھ اینڈ سینٹرل ایشین پروگرام حسن عباس کینئی کتاب میں انکشافات

بدھ 15 اکتوبر 2014 09:44

لندن(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔15اکتوبر۔2014ء)پاکستان کے عسکری اور خفیہ اداروں کے درمیان رابطوں کی کمی کے باعث وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا)میں طالبان کے دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کا خدشہ ہے۔ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی واشنگٹن کے ڈائریکٹر ساؤتھ اینڈ سینٹرل ایشین پروگرام حسن عباس نے اپنی نئی کتاب ''The Taliban Revival''(طالبان کی بحالی)میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کی خراب انسدادِ دہشت گردی پالیسی نے تحریکِ طالبان پاکستان کو مضبوط ہونے کا موقع دیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ فاٹا میں عسکری یونٹس کے ساتھ آئی ایس آئی کا کوئی افسر تعینات نہیں ہے،یہ دونوں محکمے بعض علاقوں میں ساتھ ساتھ کاروائیاں کرتے ہیں لیکن ان کے درمیان مستقل بنیادوں پر کوئی باقاعدہ رابطہ نہیں ہے۔

(جاری ہے)

مصنف حسن عباس نے اپنی نئی کتاب میں شواہد کا حوالہ دیتے ہوئے مزید انکشاف کیا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی کامیابیاں بھی امریکہ کی جانب سے اتحادیوں کے غلط چناؤ،رابطے کے فقدان اور پیسے کے ضیا ع کی وجہ سے ممکن ہوئیں۔

جنگ کے میدان میں سرگرم فوجی افسروں کے مختلف انٹرویوز کا حوالہ دیتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)میں کوئی مذہبی عنصر نہیں ہے کیونکہ ٹی ٹی پی میں بھتہ خوری،زناء بالجبر جیسے سنگین جرائم عام ہیں ۔کتاب میں سابق صدر پرویز مشرف کی سنگین غلطیوں ،انکے بے نظیر بھٹو کے ساتھ اختلاف اور ایمرجنسی کے نفاذ کے عوامل سے بھی پردہ اٹھایا گیا ہے۔مصنف حسن عباس نے اپنی کتاب کے آخر میں لکھا ہے کہ جمہوری نظام کے تسلسل سے ہی تبدیلی ممکن ہے جس سے مستقبل میں سول ملٹری تعلقات میں ہم آہنگی بھی پیدا ہو سکتی ہے،جبکہ اس طرح کی تبدیلی پاک بھارت امن عمل کیلئے بھی مددگار ثابت ہو گی جس کے بغیر خطہ اقتصادی خوشحالی کا مقصد حاصل نہیں کر سکتا۔