سپریم کورٹ کا چیف الیکشن کمشنر کی عدم تقرری پر اظہا ر بر ہمی،وفاقی حکومت کو مستقل چیف الیکشن کمشنر کا تقرر کرنے کا حکم ،28 اکتوبرتک مستقل چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی نہ ہوئی تو سپریم کورٹ اپنا جج واپس بلا لے گی ، سپر یم کورٹ ، سندھ اور پنجاب کو بلدیاتی انتخابات کیلئے حد بندیوں اور دیگر معاملات مکمل کرنے کیلئے اڑتالیس گھنٹوں میں قانون سازی کا حکم ،جمعرات تک ترمیمی بل اسمبلی میں جمع نہ کروایا تو پھر وزیراعلیٰ سندھ کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کرینگے، عدالتی ریما رکس

بدھ 15 اکتوبر 2014 09:18

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔15اکتوبر۔2014ء)سپریم کورٹ آف پاکستان نے بلدیاتی انتخابات میں مقدمے کی سماعت کے دوران سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو مستقل چیف الیکشن کمشنر کا تقرر کرنے کا حکم دیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ اگر 28اکتوبرتک مستقل چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی نہ ہوئی تو سپریم کورٹ اپنا جج واپس بلا لے گی جبکہ صحت سندھ اور پنجاب کو بلدیاتی انتخابات کیلئے حد بندیوں اور دیگر معاملات مکمل کرنے کیلئے اڑتالیس گھنٹوں میں قانون سازی کا حکم دیا ہے ۔

عدالت نے سندھ حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اگر انہوں نے جمعرات تک ترمیمی بل اسمبلی میں جمع نہ کروایا تو پھر وزیراعلیٰ سندھ کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کرینگے ۔ چیف جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ مستقل چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی آخر کب ہوگی ایک جج اضافی ذمہ د اریاں پوری کررہا ہے جس سے عدالت میں کام کا حرج ہورہا ہے سپریم کورٹ جج کے اور بھی کئی کام ہوتے ہیں حکومت آخر کب تک اداروں کو بغیر سربراہوں کے رکھے گی، پنجاب حکومت وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن کی قانون سازی کا انتظار نہ کرے اور حلقہ بندیوں کے حوالے سے بل جمعرات تک اسمبلی میں پیش کرے جبکہ جسٹس اعجاز چوہدری نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سات ماہ گزر گئے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے قانون سازی نہ ہونے کا ذمہ دار کون ہے کیوں نہ وزیراعلیٰ سندھ کو توہین عدالت کے نوٹسز جاری کردیئے جائیں ۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس منگل کے روز دیئے ہیں ۔ چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت شروع کی تو اس دوران صوبائی حکومتوں کی جانب سے عدالت میں جواب پیش کئے گئے پنجاب حکومت کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا وفاق جب تک قانون سازی نہیں کرتا اس وقت تک پنجاب بھی نہیں کرسکتا اور دونوں کی قانون سازی ہوگی تو تب ہی بلدیاتی انتخابات ہوسکیں گے جبکہ سندھ حکومت کی جانب سے جواب میں عدالت کو بتایا گیا ہے کہ حلقہ بندیوں اور دیگر حوالوں سے ایک آرڈیننس کا مسودہ تیار کیا گیا تھا جو گورنر سندھ کو بھجوایا گیا تھا تاہم انہوں نے اس پر دستخط کرنے کی بجائے اعتراض لگا کر واپس بھیج دیا تھا اس مسودے میں حلقہ بندیوں کا اختیار الیکشن کمشنر کو دیا گیا تھا اس جواب پر سپریم کورٹ برہم ہوگئی اور کہا کہ جتنا عرصہ گزر گیا قانون سازی کیوں نہیں ہورہی کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم وزیراعلیٰ سندھ کو بلائیں ہم آپ کو جمعرات تک کا وقت دے رہے ہیں بل سندھ اسمبلی میں پیش کیاجائے اگر بل پیش نہ ہوا تو وزیراعلیٰ سندھ کو توہین عدالت کے نوٹسز جاری کرینگے ۔

عدالت نے یہی حکم حکومت پنجاب کو بھی جاری کیا اور کہا کہ پنجاب حکومت کو بھی جمعرات تک کی مہلت دی جاتی ہے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے وہ اپنا بل اسمبلی میں پیش کریں جبکہ کے پی کے حکومت کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا ہے کہ حکومت نے تمام تر قانون سازی کرلی ہے صوبے میں بائیو میٹرک نظام لاگو کیاجارہا ہے اس حوالے سے الیکشن کمیشن سے بھی جلد بات ہوگی ہم الیکشن کرانے کیلئے تیار ہیں اس پر عدالت نے انہیں ہدایت کی کہ آپ الیکشن کمیشن سے رابط کرکے انہیں اپنی پیش رفت سے آگاہ کریں ۔

دوران سماعت چیف جسٹس ناصر الملک نے مستقل چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی پر بھی سخت برہمی کا اظہار کیا اور اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ حکومت اور کتنی مدت چاہتی ہے ہم زیادہ دیر اپنا جج نہیں دے سکتا یہاں عدالت میں بھی ان کے کام ہیں حکومت اگر چیف الیکشن کمشنر نہیں لگاتی تو ہم اپنا جج واپس لے لیں گے حکومت سے پتہ کرکے دیں کہ وہ کب مستقل چیف الیکشن کمشنر لگا رہی ہے اس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کیلئے اپوزیشن سے مشاورت جاری ہے اس کے لئے تین ہفتوں کی مہلت دی جائے تاہم عدالت نے ان کی یہ استدعا مسترد کردی اور حکم دیا ہے کہ اٹھائیس اکتوبر تک مستقل چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کی جائے بلدیاتی انتخابات سے متعلقہ کیس کی سماعت ملتوی کردی گئی ۔