رواں برس پاکستان میں پولیو کے پھیلاوٴ کا بدترین سال ثابت ہو سکتا ہے ،پاکستانی حکام ، ابھی تک 187 مریضوں کی تصدیق ہو چکی ، پشاور میں گذشتہ دنوں ایک روزہ مہم میں 17 ہزار والدین نے بچوں کو قطرے پلانے سے انکار کر دیا تھا، انکار کے علاوہ ہیلتھ ورکرز کو ہر وقت خطرہ رہتا ہے،لیڈی ہیلتھ سپر وائزر پشاور قاضی مسرت کی بی بی سی سے گفتگو

جمعہ 3 اکتوبر 2014 09:02

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔3اکتوبر۔2014ء)پاکستانی حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ رواں برس پاکستان میں پولیو کے پھیلاوٴ کا بدترین سال ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ ابھی تک 187 مریضوں کی تصدیق ہو چکی ہے۔پاکستان میں2000 میں سب سے زیادہ یعنی 200 بچوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی تھی۔سکیورٹی خدشات کی وجہ سے قبائلی علاقوں میں انسداد پولیو مہم نہیں ہو سکتی جبکہ خیبر پختونخوا میں ایک مہم کے دوران اوسطاًًً 40 ہزار والدین اپنے بچوں کو پولیو سے بچاوٴ کے قطرے دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔

ہیلتھ ورکروں کے لییگھر گھر جا کر والدین کو پولیو سے بچاوٴ کے قطرے پلانے کے لیے راضی کرنا اتنا آسان کام نہیں۔پشاور شہر کی لیڈی ہیلتھ سپر وائزر قاضی مسرت نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے حلقہ رشید گڑھی اور دیگر علاقوں میں انکار کرنے والے والدین کی تعداد دیگر علاقوں سے کہیں زیادہ ہے۔

(جاری ہے)

پشاور میں گذشتہ دنوں ایک روزہ مہم میں 17 ہزار والدین نے بچوں کو قطرے پلانے سے انکار کر دیا تھا۔

قاضی مسر ت کے کہا کہ انکار کے علاوہ ان کی ہیلتھ ورکرز کو ہر وقت خطرہ رہتا ہے۔قاضی مسرت نے کہا کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے ان کی ہیلتھ ورکر کے سر پر پستول تان کر کہا تھا کہ تم اس کام سے منع نہیں ہوتی تو جان سے مار دیں گے۔ پشاور میں ان دنوں ہیلتھ ورکروں کے علاوہ رضا کار بھی انسداد پولیو مہم میں شریک ہوتے ہیں۔قبائلی علاقوں کی سرحد کے ساتھ واقع 13 یونین کونسلز ایسی ہیں جہاں انسداد پولیوکے قطرے پلانے والی ٹیمیں سکیورٹی کی وجہ نہیں جا سکتیں۔

عالمی ادارہ صحت کے پاکستان میں رابطہ کار زبیر مفتی نے بدھ کو بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ پاکستان کے کئی علاقوں میں بچوں تک محفوظ رسائی نہ ملنا، والدین کا عدم تعاون اور دوار کے قطرے پلانے والے صحت کے کارکنوں اور ان کے محافظوں پر پرتشدد حملے اس بیماری پر قابو پانے کی کوششوں میں چند بڑی مشکلات ہیں جن پر اب تک قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔

خیبر پختونخوا کے انسداد پولیو کے حوالے سے ٹیکنیکل فوکل پرسن ڈاکٹر امتیاز علی شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ قبائلی علاقوں کے سرحدی علاقوں میں مشکلات ضرور ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے کہ وہ ان علاقوں میں بچوں کو پولیو سے بچاوٴ کے قطرے نہیں دے سکتے لیکن وہاں ٹیموں کا جانے میں دشواریاں ضرور ہوتی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ حیران کن بات یہ ہے کہ قبائلی علاقوں میں انکار کرنے والے والدین کی تعداد بہت کم ہے۔انھوں نے کہا کہ فاٹا میں چھ سے سات لاکھ بچوں میں سے صرف سات سو کے والدین نے انکار کیا جبکہ خیبر پختونخوا میں یہ تعداد کہیں زیادہ ہے۔امتیاز علی شاہ کے مطابق صوبے میں کسی ایک مہم کے دوران اوسطاًً 40 ہزار والدین انکار کر دیتے ہیں۔

متعلقہ عنوان :