سپریم کورٹ نے موجودہ انتخابی نظام کیخلاف دائر درخواست خارج کردی، پارلیمانی کمیٹی کو موجودہ نظام کو یکسر تبدیل کرنے کی ہدایات جاری نہیں کرسکتے،فیصلہ،ذاتی طور پر موجودہ انتخابی نظام کو نہیں مانتا مگر اپنی رائے تھوپ نہیں سکتا،جسٹس جواد، اکثریت کے نمائندے پارلیمنٹ میں نہیں جاتے لیکن اسے ہم کسی پر لاگو نہیں کرسکتے،کئی لوگوں کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ سب کچھ کرنے کا اختیار رکھتی ہے لیکن یہ خیال بالکل غلط ہے، ہماری بھی حدود و قیود ہیں‘کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس

جمعرات 2 اکتوبر 2014 09:19

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔2اکتوبر۔2014ء) سپریم کورٹ نے موجودہ انتخابی نظام کیخلاف دائر درخواست خارج کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئین میں مقرر کردہ اداروں کو دئیے گئے اختیارات کے تحت پارلیمانی کمیٹی کو موجودہ نظام کو یکسر تبدیل کرنے کی ہدایات جاری نہیں کرسکتے جبکہ تین رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ 1973ء کے آئین میں وہی جمہوریت درج ہے جو اس وقت رائج تھی‘ ذاتی طور پر موجودہ انتخابی نظام کو نہیں مانتے مگر اپنی ذاتی رائے قانون ساز ادارے پر کس طرح سے تھوپ سکتے ہیں‘ پارلیمانی کمیٹی صرف ایوان کو ہی جوابدہ ہے‘ دنیا میں مختلف نظام رائج ہیں جن میں سے تین نظام زیادہ اہم ہیں جن میں ووٹوں کے ذریعے نمائندگی‘ شرحی (تناسب) نمائندگی اور بغیر انتخابات نمائندگی شامل ہیں‘ انفرادی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ اکثریت کے نمائندے پارلیمنٹ میں نہیں جاتے لیکن اسے ہم کسی پر لاگو نہیں کرسکتے‘ کوریا اور امریکہ سمیت ہر ملک میں جو نظام بھی رائج ہے وہ اس کو جمہوریت ہی کہتے ہیں۔

(جاری ہے)

ہمیشہ قانون سازی موجودہ حالات کو مدنظر رکھ کر کی جاتی ہے‘ جمہوریت کا لفظ آئین‘ دیباچے اور الیکشن قوانین میں بھی موجود ہے‘ یہ تاثر بالکل ہے‘ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ سب کچھ کرنے کا اختیار رکھتی ہے لیکن یہ خیال بالکل غلط ہے، ہماری بھی حدود و قیود ہیں‘ سپریم کورٹ نے آئین و قانون کے مطابق ہی فیصلہ کرنا ہوتا ہے‘ یہ اچھی بات ہے کہ انتخابی قوانین کا ان کی روح کی مطابق نفاذ ہونا چاہئے۔

انہوں نے یہ ریمارکس بدھ کے روز دئیے۔ راہی نامی وکیل کی جانب سے ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل دائر کی گئی تھی جس میں انہوں نے عدالت سے استدعاء کی تھی کہ موجودہ انتخابی نطام اکثریت کا نظام نہیں ہے اور شرکت پر موجود لوگوں کا کوئی نمائندہ پارلیمنٹ میں موجود نہیں ہے لہٰذا پارلیمانی کمیٹی جس کو وزیراعظم نے ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے سپیکر کو خط لکھ کر قائم کرایا ہے اسے عدالت ناصرف ہدایات جاری کرسکتی ہے بلکہ انہیں یہ حکم بھی دے سکتی ہے کہ انتخابی نظام میں اس طرح کی تبدیلیاں کی جائیں کہ یہ اکثریتی لوگوں کا نظام ثابت ہوسکے۔

دس ہزار روپے کا جرمانہ بھی ختم کیا جائے۔ عدالت نے درخواست خارج کرتے ہوئے جرمانہ ختم کردیا مگر پارلیمانی کمیٹی کو ہدایات جاری کرنے سے انکار کردیا۔