ممکنہ ماورائے آئین اقدام کیس ،عوامی تحریک نے اپنے جواب میں حکومت کی قانونی حیثیت کوچیلنج کردیا،عدالت عظمیٰ کے روبرو 14سوالات رکھ دیئے ،بلدیاتی انتخابات نہ کرانے اورسیاسی جماعتوں میں عدم احتساب کا معاملہ بھی اٹھا دیا

بدھ 1 اکتوبر 2014 08:32

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔1اکتوبر۔2014ء ) پاکستان عوامی تحریک نے ممکنہ ماورائے اقدام کیس میں جمع کرائے گئے جواب میں سپریم کورٹ کے روبرو 14 سوالات رکھ دیئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ مبینہ چوری شدہ مینڈیٹ سے بننے والی حکومت کی قانونی حیثیت کیا ہے؟،کیا حکومتوں نے جمہوریت کے نام پر عوام سے کئے گئے وعدے پورے کئے؟ کیا بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے عدالتی حکم کی خلاف ورزی نہیں ہوئی؟سپریم کورٹ میں ممکنہ ماورائے آئین اقدام کیس کی سماعت چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں لارجر بنچ نے دواکتوبر کوسماعت کرناہے اس سلسلے میں عوامی تحریک نے سپریم کورٹ کے سامنے حکومت اور نظام پر متعدد سوالات اٹھا دئیے۔

پاکستان عوامی تحریک کی جانب سے بیرسٹر علی ظفر سپریم کورٹ میں زیر سماعت ماورائے آئین اقدام کیس کے سلسلے میں نیا جواب داخل کرایا ہے جس میں عدالت عظمٰی کے سامنے 14 سوالات رکھے گئے ہیں،

جن میں کہا گیا ہے کہ موجودہ حکومت چوری شدہ مینڈیٹ کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے اس کی قانونی حیثیت کیا ہے، کیا سیاسی جماعتوں میں احتساب کو کوئی نظام ہے؟ ، کیا جمہوری حکومتوں نے عوام سے کئے گئے وعدے پورے کئے؟، ملک میں بلدیاتی انتخابات اور اہم اداروں کے سربراہان کی تقرری کے سلسلے عدالتی حکم کی خلاف ورزی نہیں ہورہی، کیا عوام کے اثاثوں کو نجکاری کے نام پر فروخت نہیں کیا جارہا، آئین میں بنیادی حقوق کے حوالے سے عوام سے کئے گئے وعدوں کی خلاف ورزی نہیں کی جارہی۔

(جاری ہے)

ارکان اسمبلی کا کام ترقیاتی کام کروانا ہے یا قانون سازی کرنا، کیا ارکان اسمبلی کو ملنے والے ترقیاتی فنڈز میں کرپشن نہیں ہوتی۔ کیا موجودہ نظام میں گڈگورننس کی کمی نظر نہیں آتی؟ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے اور اداروں کے سربراہوں کی تقرری کے معاملے میں عدالتی حکم کی خلاف ورزی نہیں کی گئی؟ عوامی تحریک نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کیا اراکین اسمبلی کے ترقیاتی فنڈز کے استعمال میں کرپشن نہیں ہوتی؟ ارکان اسمبلی کا کام ترقیاتی کام کرانا ہے یا قانون سازی کرنا ، پی اے ٹی نے سوال اٹھایا کہ چوری شدہ الیکشن کے نتیجے میں بننے والی حکومت کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ کیا سیاسی جماعتوں اور اداروں کے اندر احتساب کا کوئی نظام موجود ہے؟ کیا احتساب کرنے والے اداروں کو اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھانی چاہئیں؟ ۔