موجودہ سیاسی بحران اور سیلاب کے معیشت پر پڑنے والے اثرات اور نقصانات کے حوالے سے قائمہ کمیٹی سینیٹ برائے خزانہ کا اجلاس، موجودہ صورت حال میں معیشت پر گہرا اثر پڑا ہے فوری طور پر ایکسچینج ریٹ پر فرق پڑا ابتدائی طور پر سٹاک مارکیٹ کو دھچکا لگا تھا تاہم اب نقصانات کو فوری طور پر پورا کر لیا گیا ہے ، وقار مسعود،یکم ستمبر سے افراط زر 7 فیصد پر آگیا ہے لیکن قیمتیں اب بھی مستحکم نہیں ۔IMF کے ساتھ چوتھی قسط کا ستمبر کے آخر تک معاہدہ ہوناتھا لیکن تعطل پیدا ہو گیا ہے جس سے 25 کروڑ ڈالر تاخیر کا شکا ر ہوئے اور سُو ک بانڈ عالمی مارکیٹ میں ایک ارب ڈالر کے فروخت کرنے تھے میں دو سے تین ہفتوں کی تاخیر ہو گئی ہے جسے اکتوبر میں مکمل کرنے کا منصوبہ ہے تین اہم صدور کے دورے ملتوی ہو گئے، گزشتہ 14 ماہ میں حکومت نے جو معاشی کامیابیاں حاصل کی کمی کو حالات سدھرنے پر جلد پورا کرلیں گے اس بات پر سٹیٹ بینک نے بھی مانیٹری پالیسی میں خدشات کا اظہار کیا ہے ،سیکرٹری خزانہ کی بریفنگ

ہفتہ 27 ستمبر 2014 08:10

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔27ستمبر۔2014ء )موجودہ سیاسی بحران اور سیلاب کے معیشت پر پڑنے والے اثرات اور نقصانات کے حوالے سے قائمہ کمیٹی سینیٹ برائے خزانہ کا اجلاس چیئر پرسن سینیٹر نسرین جلیل کی کراچی میں مصروفیات کی وجہ سے سینیٹر الیاس بلور کی صدارت میں منعقد ہوا۔ سیکرٹری خزانہ وقار مسعود نے کمیٹی کو بتایا کہ موجودہ صورت حال میں معیشت پر گہرا اثر پڑا ہے فوری طور پر ایکسچینج ریٹ پر فرق پڑا ابتدائی طور پر سٹاک مارکیٹ کو دھچکا لگا تھا تاہم اب نقصانات کو فوری طور پر پورا کر لیا گیا ہے یکم ستمبر سے افراط زر 7 فیصد پر آگیا ہے لیکن قیمتیں اب بھی مستحکم نہیں ۔

IMF کے ساتھ چوتھی قسط کا ستمبر کے آخر تک معاہدہ ہوناتھا لیکن تعطل پیدا ہو گیا ہے جس سے 25 کروڑ ڈالر تاخیر کا شکا ر ہوئے اور سُو ک بانڈ عالمی مارکیٹ میں ایک ارب ڈالر کے فروخت کرنے تھے میں دو سے تین ہفتوں کی تاخیر ہو گئی ہے جسے اکتوبر میں مکمل کرنے کا منصوبہ ہے تین اہم صدور کے دورے ملتوی ہو گئے چین کے صدر کے دورے کیلئے حکومت نے بھر پور تیاری کرلی تھی توانائی کے شعبہ میں سرمایہ کاری آنی تھی جنہیں جلد مکمل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے سیاسی بحران کی وجہ سے مالدیپ اور سری لنکا کے صدور کے دورے بھی ملتوی ہوگئے ہیں گزشتہ 14 ماہ میں حکومت نے جو معاشی کامیابیاں حاصل کی کمی کو حالات سدھرنے پر جلد پورا کرلیں گے اس بات پر سٹیٹ بینک نے بھی مانیٹری پالیسی میں خدشات کا اظہار کیا ہے

کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز عثمان سیف اللہ خان ، فتح محمد محمد حسنی ، ہمایوں خان مندوخیل، ملک رفیق رجوانہ ، نزہت صادق کے علاوہ سیکرٹری خزانہ وقار مسعود، سیکرٹری اکنامک افیئرز سلیم سیٹھی ، این ڈی ایم اے کے چیئرمین میجر جنرل سعید علیم بھی موجود تھے ۔

(جاری ہے)

چیئرمین کمیٹی سینیٹر الیاس بلور نے کہا کہ دنیا بھر میں پیڑولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے لیکن پاکستان کے صارفین کو فائدہ نہیں دیا گیا ۔سینیٹر عثمان سیف اللہ خان نے کہا کہ دھرنوں کے بعد بھی عام سرمایہ کاروں کا اعتماد فوری طور پر بحال ہونا ممکن نہیں ہوگا ۔سیاست سے بالا تر ہو کر ملکی مفاد کو ترجیع دے کر ملکی معیشت کی بہتری کیلئے مشترکہ اقد امات کی ضرورت ہے ۔

سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ ابتدائی طورپر سٹاک مارکیٹ کو 240 ارب کا کیپٹل نقصان ہوا روپے کی قدر گرنے سے سٹاک مارکیٹ نے نقصان پورا کیا عالمی سطح پر پٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہو رہی ہے ملکی ماحول بہتر ہوتا تو عوام کو زیادہ ریلیف دیا جا سکتا تھا لیکن 7 سے 8 ماہ کے دوران ضروریات زندگی کی اشیاء کی قیمتوں میں استحکام رہا سینیٹر الیاس بلور نے کہا کہ سٹیٹ بینک کو شرح سو د کم کرنا چاہے ڈالر کی قیمت گرنے کے باوجود عوام کو ریلیف فراہم نہیں کیا گیا ۔

سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ توانائی کے شعبہ میں پی ایس او کے ذریعے 18 ہزار ٹن پٹرولیم مصنوعات کی سپلائی دی جارہی ہے اور سارے آئی پی پیز تیل اور گیس پر چل رہے ہیں 550 ملین ڈالر کی پٹرولیم مصنوعات گزشتہ سال کے مقابلے میں زیادہ درآمد کی گئیں حکومت نے سبسڈی دی ماضی قریب میں اس استحکام کو کوئی خطرہ نہیں تمام عمل خفیہ نہیں بلکہ شفاف انداز سے ہوتا ہے اور آگاہ کیا کہ او جی ڈی سی ایل کے دس فیصد شیئرز میں سے 7 فیصد اب اور 3 تین فیصد بعد میں فروخت کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے جس سے 850 ملین ڈالر ملنے کی توقع ہے سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں 80 فیصد اضافہ ہو گیا ہے عام عادمی کا جینا محال ہو گیا ہے دو بلب ایک پنکھے کے بجلی صارف کو 60 ہزار کا بل بجھوا دیا گیا ہے منافع بخش اداروں کی نجکاری کے بجائے بیمار صنعتوں کو ٹھیک کرنے پر توجہ دی جائے اور کہا کہ سیلاب کی پیشگی اطلاع کے باوجود این ڈی ایم کی کارکردگی ناقص رہی متاثرین سیلاب کی خدمت افواج پاکستان نے کی ۔

سیکرٹری خزانہ نے بتایا کہ زر مبادلہ ذخائر 10 ارب ڈالر تک پہنچے ا ور124 ارب ڈالر کی ادائیگیاں تاخیر کا شکار ہوئیں سینیٹر فتح محمد محمد حسنی اور سینیٹر ہمایوں مندوخیل نے پاک چین اقتصادی راہداری کے روٹ کو تبدیل کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ اسلام آباد ، واشنگٹن ڈی سی اور بلوچستان افریقہ کا منظر پیش کر رہا ہے پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے اتصالات کے بارے میں سیکرٹری خزانہ نے بتایا کہ پی ٹی سی ایل کی 131 ملکیتی زمینوں میں 100 اتصالات کے حوالے کر دی گئی ہیں

اتصالات کو کہا کہ حکومت 100 قدم میں سے 80 قدم بڑھا چکی 50 فیصد ادائیگی کی جائے لیکن ابھی ادائیگیاں حاصل نہیں کر سکے اتصالات نے زمینوں کے رین ، ،ملکیت ، معاہدات کے بارے میں اعتراضات کئے ہیں سینیٹرز فتح محمد محمد حسنی ، کلثوم پروین ، ہمایوں مندوخیل نے کہا کہ اس طرح تو اتصالات سے 100 سال میں بھی وصولی نہیں ہو سکے گی اتصالات اور حکومت کے درمیان معاہدے کی انکوئری ہونی چاہے این ڈی ایم اے چیئرمین میجر جنرل سعید علیم نے کہا کہ اب دریا معمول کے مطابق بہہ رہے ہیں متاثرہ علاقوں میں سیلابی پانی کم ہو گیا ہے حافظ آباد کے لوگ واپس آگئے ہیں جھنگ اور چنیوٹ کے متاثرین سیلاب ابھی واپس نہیں آسکے دریا ئے چناب اور مقبوضہ کشمیر کے دریاؤں سے زیادہ نقصانات ہوئے پنجاب میں 23 ، سندھ میں 4 ،گلگت بلتستان میں 5 اور آزاد کشمیر کے چار اضلاع متاثر ہوئے سیلاب متاثرین کو بحفاظت نکالنے کیلئے 19 ہیلی کاپٹر 574 کشتیاں استعمال کی گئیں کل 17 لاکھ 8 ہزار افراد متاثر ہوئے 24 لاکھ ایکٹر زرعی اراضی متاثر ہوئی 359 اموات ، 644 زخمی ، 4065 گاؤں متاثر ہوئے 8641 مویشی ہلاک ہوئے سب سے زیادہ نقصان زراعت کا ہوا بنیادی ڈھانچہ زیادہ متاثر نہیں ہوا این ڈی ایم اے کے پاس صرف ایک جہاز ہے ریلیف فراہم کرنا صوبائی حکومتوں کا کام ہے ہماری تیاری مکمل تھی مظفر گڑھ کے این ڈی ایم اے کے ویئر ہاؤس کے ذریعے متاثرین کی مدد کی گئی سیلاب کے نقصانات کا تخمینہ ایک ادراہ کا کام نہیں یہ ذمہ داری وزارت پانی وبجلی کی بھی ہے جس کے ماتحت فیڈرل فلڈ کمیشن کا محکمہ موجود ہے اور ڈیموں کے پانی کی صورت حال کا کنٹرول بھی وزارت پانی و بجلی کا ہے آمدہ سیلاب کی پیشن گوئی فلڈ فور کاسٹنگ ڈویژن کا کام ہے این ڈی ایم اے نیشنل فلڈ پروٹیکشن پلان بنا رہا ہے لیکن ماسٹر پلان میں سب سے بڑی رکاوٹ دریاؤں ندی نالوں اور بندوں کے کنارے آبادیاں ہیں 1873 کے قانون پر عمل کر کے دریائی علاقوں سے وفاقی و صوبائی حکومتیں آبادیوں کو ختم کرنے کا اختیار رکھتی ہیں جس پر عمل کی اشد ضرورت ہے۔

متعلقہ عنوان :