اپوزیشن جرگہ ، حکومت ، پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے درمیان مفاہمت کیلئے ایک بار پھر میدان میں اتر آیا، افغانستان میں سیاسی بحران حل ہوسکتا ہے تو ہم کیوں نہیں کرسکتے ، پوری قوم اضطراب کا شکار ہے ، سیاسی معاملات میں مداخلت کرکے زندہ قوم کا ثبوت دیا ، وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ ٹیکنیکل نہیں سیاسی ہے اسے سیاسی طور پر ہی حل کیا جائے ،سپیکر استعفوں کے معاملے پر عجلت کا مظاہرہ نہ کریں ، ، سراج الحق ، بھارت مریخ پر پہنچ گیا ہم دھرنوں میں پھنسے ہوئے ہیں،حاصل بزنجو

جمعہ 26 ستمبر 2014 07:59

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔26ستمبر۔2014ء) اپوزیشن جرگہ ، حکومت ، پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے درمیان مفاہمت کیلئے ایک بار پھر میدان میں اتر آیا ، سراج الحق نے کہا ہے کہ اپوزیشن جرگہ کے 41 اجلاس کرچکے ،16 مرتبہ عوامی تحریک اور 15مرتبہ پی ٹی آئی سے حکومت کے مذاکرات کرائے ، اگر افغانستان میں سیاسی بحران حل ہوسکتا ہے تو ہم کیوں نہیں کرسکتے ، پوری قوم اضطراب کا شکار ہے ، سیاسی معاملات میں مداخلت کرکے زندہ قوم کا ثبوت دیا ہے ، وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ ٹیکنیکل نہیں سیاسی ہے اور سیاسی طور پر ہی حل کیا جائے ،سپیکر استعفوں کے معاملے پر عجلت کا مظاہرہ نہ کریں جبکہ رحمان ملک نے کہا ہے کہ حکومت ، پی ٹی آئی اور عوامی تحریک ہوش کے ناخن لے ایسا نہ ہو کہ تاریخ معاملے کو سیاہ باب کے طور پر یاد رکھے اگر مسئلہ بات چیت سے حل نہ ہوا تو سیاسی تصادم کا خطرہ ہے جس سے سب کو نقصان ہوگا ،دھاندلی کی تعریف کے سوا تمام معاملات حل کرچکے تھے یہ معاملہ بھی اتنا گھمبیر نہیں کہ افلاطون اور ارسطو کو بلایا جائے ، میڈیا اس معاملے پر مثبت کردار ادا کرے جبکہ حاصل بزنجو کہتے ہیں بھارت مریخ پر پہنچ گیا ہم دھرنوں میں پھنسے ہوئے ہیں جس سے ملک کی معیشت کو بہت نقصان پہنچا ، کلثوم پروین نے بھی مسئلہ کو بات چیت سے حل کرنے پر زور دے دیا ۔

(جاری ہے)

جمعرات کے روز اپوزیشن جرگہ کا 42واں اجلاس اسلام آباد میں سابق وزیر داخلہ رحمان ملک کی رہائش گاہ پیپلز ہاؤس میں ہوا اجلاس کی صدارت امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کی اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما رحمان ملک ، میر حاصل بزنجو اور سینیٹر کلثوم پروین نے شرکت کی اور اپوزیشن جرگہ کی جانب سے حکومت اور دھرنا قیادت کو لکھے جانے والے کھلے خط کی تجاویز اوراس کے بعد ہونے والی پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا جبکہ قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کی جانب سے تینوں فریقین کے سربراہوں سے مذاکرات کی تجویز کا بھی جائزہ لیا گیا ۔

بعد ازاں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے اپوزیشن جرگہ کے رکن میر حاصل بزنجو نے کہا کہ ڈیڈ لاک کے خاتمے کیلئے اپوزیشن جرگہ اپنا کردار ادا کررہا ہے انہوں نے کہا کہ دھرنوں کی وجہ سے معیشت کو بڑا نقصان ہوا ہے بھارت اس وقت ترقی کی جانب بڑھ رہا ہے اور مریخ تک پہنچ گیا ہے لیکن ہم دھرنوں سے آگے نہیں بڑھ رہے ۔ انہوں نے کہا کہ آج کے اجلاس میں جرگہ نے محسوس کیا ہے کہ مشکلات نظر آرہی ہیں اور ایک بار پھر ڈیڈ لاک ہوتا ہوا نظر آرہا ہے ہم حکومت ، پی ٹی آئی اور پیڈ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ دوبارہ مذاکرات کی ابتدا کی جائے کیونکہ صورتحال کا کوئی بھی حل تب ہی نکل سکتا ہے ۔

امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ جرگہ میں مختلف سیاسی جماعتوں کے لوگ ہیں ہر جماعت کا پارلیمنٹ میں اپنا موقف ہے لیکن ذاتی نقطہ نظر کو ایک جانب رکھ کر سب نے ملک کو اس بحران سے نکالنے کیلئے سوچ بچار کی ہے ہر معاملے پر ملک وقوم کا مفاد ہمارے پیش نظر ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اب ہر آدمی یہ سوال کررہا ہے کہ یہ دھرنا کب ختم ہوگا سکول کے بچے مرد بوڑھے عورتیں اس بحران پر رنجیدہ ہیں سیاسی بحران میں ہر شہری کی مداخلت زندگی اور روشنی کی علامت ہے جس سے محسوس ہوتا ہے کہ قوم جاگ رہی ہے اور مستقبل کے حوالے سے فکر مند ہے ۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی جرگہ اب تک 41میٹنگز کرچکا ہے جبکہ اپوزیشن جماعتوں کا یہ نمائندہ وفد سولہ مرتبہ پاکستان عوامی تحریک اور حکومت اور پندرہ مرتبہ حکومت اور تحریک انصاف کو مذاکرات کی میز پر بیٹھا چکا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کہتے ہیں کہ ان کا دھرنا ملکی تاریخ کا سب سے بڑا دھرنا ہے تو ہم بھی واضح کردیں کے کسی بھی معاملے کیلئے ثالثی کیلئے جرگہ کی یہ سب زیادہ اور تاریخی میٹنگز ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ جب لوگوں نے ہاتھوں میں ڈنڈے اٹھا رکھے تھے کفن پہن رکھے تھے اور قبریں کھودی جارہی تھیں تو ہم نے مداخلت کرکے ان ہاتھوں میں قلم اور کرکٹ بیٹ دے دیئے کفن اتروا دیئے اور قبریں کھودنا بند کرائی جو مثبت پیش رفت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اب یہ حکومت عوامی تحریک اور پی ٹی آئی قیادت کا امتحان ہے کہ وہ ان معاملات کو آپس میں مل بیٹھ کر حل کرے ہم صرف تجاویز دے سکتے ہیں فیصلہ خود تینوں فریقوں کو کرنا ہے ۔

سراج الحق نے مزید کہا کہ قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ اور دیگر اپوزیشن رہنماؤں نے مشورہ دیا ہے کہ اب مذاکرات تینوں فریقوں کے سربراہوں سے کئے جائیں اس معاملے پر بھی غور کررہے ہیں

انہوں نے افغانستان کے بحران کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ بیٹھ کر معاملہ حل کرسکتے ہیں تو پاکستان میں ہم ایسا کیوں نہیں کرسکتے انہوں نے اس موقع پر اسلام آباد کے دس سکولوں کی بندش بارے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ان سکولوں کو کھلنا چاہیے لیکن اسی طریقے سے شمالی وزیرستان میں سینکڑوں سکولوں کو بند کردیا گیا ہے بتایا جائے کیا ہم وہاں کے عوام کو تعلیم نہیں دینا چاہتے اور کیا ہم ان کے ہاتھوں میں کلاشنکوف دینا چاہتے ہیں سیاسی اکابرین کو اس جانب غور کرنا ہوگا کیونکہ یہ معاملہ صرف دھرنوں کا نہیں اس وقت ملک کو سیلاب ، آئی ڈی پیز اور کراچی جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے مسائل ٹھنڈے دماغ سے حل کرنا ہونگے اور ہمیں اپنے سیاسی رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی کیونکہ سیاست کا اب پرانا انداز نہیں چلے گا عوام بیدار ہوچکے ہیں اور میڈیا بھی آزاد ہے ۔

انہوں نے کہا کہ تینوں فریقوں سے ایک بار پھر اپیل ہے کہ وہ علم و دانش ، فراست اور ملک قوم کی محبت کی بنیاد پر مذاکرات کریں اور مسئلہ حل کریں ہم سرکاری یا دھرنے والوں کی نمائندگی نہیں کررہے بلکہ ہم عدل و انصاف آئین و قانون اور عوام کی نمائندگی کررہے ہیں ۔ اس موقع پر سابق وزیر داخلہ رحمان ملک نے کہا کہ اس وقت تاریخ لکھی جارہی ہے اپوزیشن جرگہ اپنا کردار ادا کررہا ہے لیکن اگر یہ مسئلہ مذاکرات سے حل نہ ہوا تو کہیں اس معاملے کو سیاہ باب کے طور پر نہ لکھا جائے مذاکرات ناکام ہوئے تو سیاسی تصادم کا خطرہ ہے اور اگر ایسا ہوا تو یہ سب کیلئے نقصان دہ ہوگا اس لئے راستہ نکالا جائے ۔

انہوں نے کہا کہ مجھ سے جرگہ کے مینڈیٹ کا سوال کیاجاتا ہے اس جرگہ کا مینڈیٹ عوام کے حق اور عوام کی نمائندگی کا مینڈیٹ ہے اس لئے اپنا فرض سمجھ کر انجام دے رہے ہیں انہوں نے کہا کہ ڈیڈ لاک سے پہلے تمام معاملات ماسوائے استعفیٰ اور دھاندلی کی تعریف کے سب حل ہوچکے تھے سب پر اتفاق ہوگیا تھا دھاندلی کا معاملہ بھی ایسا نہیں ہے کہ اس کے لئے کسی افلاطون یا ارسطو کی ضرورت ہو آئینی ماہرین اس کو حل کرسکتے ہیں ۔

کلثوم پروین نے بھی اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک قوم کے مفاد میں چاہتے ہیں مسائل حل ہوں کیونکہ پوری قوم ڈیپریشن کا شکار ہے ۔ ایک سوال پر امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ وزیراعظم کے استعفے کا معاملہ کوئی ٹیکنیکل ایشو نہیں یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اور سیاسی طور پر یہ مسئلے حل کئے جاسکتے ہیں انہوں نے تحریک انصاف کے استعفوں کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ اس معاملے پر سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کے پاس جارہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس معاملے پر سپیکر جلد بازی کا مظاہرہ نہ کریں اور عجلت کی بجائے صبر سے کام لیں تاکہ اس سیاسی بحران کو حل کیا جاسکے ۔

ایک اور سوال پر رحمان ملک نے کہا کہ اپوزیشن کا آئندہ اجلاس تیس ستمبر یا یکم اکتوبر کو ہوگا ہم چاہتے ہیں کہ عید سے قبل تمام مسائل حل ہوجائیں اپوزیشن کا اجلاس تیس ستمبر کو رکھنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ وزیراعظم بیرون ملک دورہ ختم کرکے واپس آجائینگے اور ان کے ساتھ بھی اس معاملے پر بات ہوگی ۔