تبدیلی انقلاب سے نہیں اصلاح سے آتی ہے، احسن اقبال ،اسلام کی تعلیمات کو چھوڑنے کی وجہ سے ہم تفرقوں میں پڑ گئے ،نظام سے باہر رہ کر سسٹم کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا،اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم نظام کا حصہ بن کر اس کے اندر انقلابی تبدیلیاں لے کر آئیں،ملک کی ترقی پالیسیوں کے تسلسل سے ہوتی ہے،ملک کے اندر جمہوریت کو ایک سایہ دار درخت بننے دیا جائے،ہم قرآن کی تعلیمات کو سمجھ نہیں سکے جس کی وجہ سے آج ہمیں”اسلام کا اصلی چہرہ“پیش کرنے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے،ملک کے اندر انفرادی دلچسپی نہ دیکھی جائے بلکہ جمہور کی رائے کو سامنے رکھا جائے، کتاب کی تقریب رونمائی سے خطاب

بدھ 24 ستمبر 2014 08:24

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔24ستمبر۔2014ء)وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی وترقیات احسن اقبال نے کہا ہے کہ تبدیلی انقلاب سے نہیں اصلاح سے آتی ہے،اسلام کی تعلیمات کو چھوڑنے کی وجہ سے ہم تفرقوں میں پڑ گئے ہیں،نظام سے باہر رہ کر سسٹم کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا،اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم نظام کا حصہ بن کر اس کے اندر انقلابی تبدیلیاں لے کر آئیں،ملک کی ترقی پالیسیوں کے تسلسل سے ہوتی ہے،ملک کے اندر جمہوریت کو ایک سایہ دار درخت بننے دیا جائے،ہم قرآن کی تعلیمات کو سمجھ نہیں سکے جس کی وجہ سے آج ہمیں”اسلام کا اصلی چہرہ“پیش کرنے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے،ملک کے اندر انفرادی دلچسپی نہ دیکھی جائے بلکہ جمہور کی رائے کو سامنے رکھا جائے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے مشہور مصنف ڈاکٹر عزیزالرحمن بگھیو کی کتاب”اسلام کا اصلی چہرہ“ کی پرسٹن یونیورسٹی میں تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ہم نے اسلام کی تعلیمات کو بھلا کر پس پشت ڈال دیا ہے جس کی وجہ سے ہم انتشار اور تفرقوں میں بٹے ہوئے ہیں،اسلام نے کبھی بھی انقلاب کی تلقین نہیں کی بلکہ اصلاح کی تلقین کی ہے جس کی وجہ سے اسلام صحیح معنوں میں دنیا کے طول وعرض میں پھیلا ہے،دنیا کو سائنس کے اندر ترقی دینے والے بڑے بڑے سائنسدان اسلام کی روح کو سمجھ کر اسے اپنی تحقیق میں لاگو کیا لیکن بدقسمتی سے ہم نے اپنی مقدس کتاب کا ترجمہ خود اپنی مرضی سے اخذ کیا اور اپنے مطلب کی چیزوں پر عملدرآمد کیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اس وقت انقلاب کی نہیں بلکہ ایسے جمہوری تسلسل کی ضرورت ہے جس کی پالیسیوں کے تسلسل سے ملک ترقی کرسکے،ہمیں 20سال کی حکومت نہیں چاہئے بلکہ جمہوریت کے بقاء کی خاطرپانچ سال پورے کرنے دئیے جائیں،دنیا میں ترقی یافتہ ممالک کے اندر ایک رولنگ پارٹی کی پالیسیوں کے تسلسل کی وجہ سے ترقی کی ،پاکستان کو ابھی اسی تسلسل کی ضرورت ہے جو دنیا کے اندر ترکی کے نام سے جانا جاتا ہے اور اسی انقلاب کی ضرورت ہے جو چائنہ کے اندر ترقی یافتہ چین کے دور سے جانا جاتا ہے،جہاں پر پالیسیوں کے تسلسل نے ملک کو انقلابی ترقیاں دیں۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عزیز الرحمن بگھویو کی کتاب اس بات کا تعین کرتی ہے کہ مسلمانوں کو کامیابی حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ قرآن کی تعلیم کو اپنی زبان میں سمجھ سکے،آج کل کے دور میں اسلام اور قرآن کی تعلیمات کو غلط طورپر پیش کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ملک کے اندر انتشار اور انارکی ہے۔انقلابی دھرنوں کے حوالے سے ایک بار پھر انہوں نے تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ سسٹم سے باہر رہ کر کبھی بھی سسٹم تبدیل نہیں کیا جاسکتا،انقلابوں اور دھرنے والوں کو سسٹم کا حصہ بن کر نظام کو تبدیل کرنا ہوگا۔

اس موقع پر سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اسلام کے بارے میں جو تصویر مغرب کی دنیا میں قائم ہے اس کو غلط ثابت کرنے کیلئے یہ کتاب اسلام کا اصلی چہرہ کا سامنے آنا خوش آئند بات ہے۔انہوں نے کہا کہ اس کتاب کو قرآن کی تعلیمات سے جوڑ کر خوش اسلوبی سے نوجوان نسل کو یہ پیغام دیا ہے کہ نوجوان نسل فرقہ واریت کے بجائے جدوجہد پر زیادہ توجہ دیں،اسلام کے اندر جہاد بالقلم سب سے افضل جہاد تصور کیا جاتا ہے،اس کتاب کے مصنف نے علامہ اقبال اور شاہ عبداللطیف بٹائی کی تعلیمات سے متاثر ہوکر اسلام کا جو نقشہ کھینچا ہے اس سے ہمیں ایک نئی جہت ملی ہے۔

کتاب کے مصنف ڈاکٹر عزیزالرحمن بگھیو نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انصاف کا نہ ملنا معاشرے کو برائی کی طرف لے جاتا ہے،ظلم ناانصافی جس معاشرے میں ہوتی ہے وہ معاشرہ زندہ نہیں رہتا،اسلام نے میانہ روی اور انصاف کا درس دے کر دنیا کے تمام مذاہب کو منسوخ کردیا،اس زمین پر اللہ کا خلیفہ ہونے کے ناطے عبادات کا طریقہ سیکھنے اور سکھانے کا عمل سب سے افضل ہے،اس وقت حقوق العباد کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے حالانکہ حقوق اللہ کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

تقریب میں ڈاکٹر غضنفر مہدی،ڈاکٹر محمد ریاض اور سینیٹر اکرم ذکی نے بھی خطاب کیا،تقریب کے دوران”گونوازگو“ کے نعروں پر وفاقی وزیر نے نوجوانوں کو مخاطب کرکے کہا کہ مہذب معاشروں کے اندر ایسے غیر مہذب حرکات آپ کے لیڈر کی پہچان بتاتا ہے،لہٰذا انسان کو مہذب رہ کر مہذب انداز میں گفت وشنید کا حصہ بننا چاہئے۔

متعلقہ عنوان :