اپوزیشن جرگہ کی سفارشات پارلیمانی سربراہوں ‘ پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کو پوری طرح مطمئن نہ کر سکیں‘ معاملات تعطل کا شکار ہوگئے‘ براہ راست دھرنا قیادت سے مذاکرات کا فیصلہ

ہفتہ 20 ستمبر 2014 07:58

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔20ستمبر۔2014ء) اپوزیشن جرگہ کی سفارشات پارلیمانی سربراہوں ‘ پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کو پوری طرح مطمئن نہ کر سکیں‘ معاملات تعطل کا شکار ہوگئے‘ براہ راست دھرنا قیادت سے مذاکرات کا فیصلہ۔ باوثوق ذرائع نیخبر رساں ادارے کو بتایا کہ گزشتہ روز اپوزیشن جرگہ کی جانب سے گیارہ نکاتی سفارشات پر حکومتی حلیف اور اپوزیشن جماعتوں کے پارلیمانی سربراہوں نے تفصیلی غور و خوص کیا لیکن اس پر اکثر پارلیمانی سربراہوں کو تحفظات تھے اور مکمل اتفاق رائے نہ ہوسکا جس پر یہ کہا گیا ہے کہ جب تک اتفاق رائے نہیں ہوتا کسی ڈرافٹ کو حتمی شکل نہیں دی جاسکتی۔

پارلیمانی سربراہوں میں اکثر کا کہنا تھا کہ گیارہ نکاتی فارمولے پر مزید غور کرنے کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

اس معاملے پر جلد بازی کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔ جہاں پہلے اتنا صبر کیا گیا ہے تھوڑا مزید کرلیا جائے اور اب مذاکراتی کمیٹیوں کی بجائے جرگہ براہ راست ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان سے مذاکرات کرے تاکہ کسی نتیجے پر پہنچا جاسکے۔ کیونکہ حتمی ڈرافٹ وہی ہو گا جس پر طرفین کی قیادت دستخط کرے گی جبکہ اس سلسلے میں حکومت بھی لچک کا مظاہرہ کرے اور دونوں جماعتوں کے جو کارکنان گرفتار کئے گئے ہیں انہیں جذبہ خیر سگالی کے طور پر رہا کیا جائے اور اپنا دل مزید بڑا کرے۔

ذرائع نے خبر رساں ادارے کو مزید بتایا کہ پاکستان عوامی تحریک اور تحریک انصاف بھی اپوزیشن جرگہ کی گیارہ نکاتی سفارشات پر مکمل اتفاق نہیں کررہیں جس کے باعث معاملات ایک مرتبہ پھر تعطل کا شکار ہوگئے ہیں۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف کو کچھ نکات پر اتفاق نہیں اور وہ اس پر وہ مزید غور کیلئے وقت مانگ رہے ہیں۔

ادھر جمعہ کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر داخلہ اور اپوزیشن جرگہ کے اہم رکن رحمن ملک نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے مسائل کے حل کیلئے ایک مناسب ڈرافٹ تیار کیا ہے البتہ اس معاملے پر طرفین کو لچک کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ انہوں نے ایک سوال پر کہا کہ احتجاجی قائدین کی جانب سے سب سے بڑا مطالبہ وزیراعظم کا ستعفیٰ ہے اور اس معاملے پر بھی ہم نے آئینی حل نکالا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز اپوزیشن جرگہ نے ایک طویل اجلاس کے بعد گیارہ نکات پر مشتمل ڈرافٹ وزیراعظم ‘ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کو ایک کھلے خط کی صورت میں بھجوایا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اگر منظم دھاندلی ثابت ہوجائے تو و زیراعظم اس معاملے پر پارلیمنٹ میں مستعفی ہونے کا بیان دیں گے اور یہ فریقین میں ایک معاہدہ تصور ہوگا ۔ سفارشات میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ دھاندلی کی تحقیقات کیلئے اعلیٰ سطحی کمیشن تشکیل دیاجائے جو تمام معاملات میں باختیار ہوگا اور کسی بھی سرکاری افسر کی خدمات سمیت دھاندلی کی شکایات کا ازالہ کرنے کیلئے بیرون ملک سے ماہرین کی امداد بھی لے سکے گا۔

جبکہ عوامی تحریک کے تمام مقدمات پنجاب کی بجائے دیگر صوبوں میں منتقل کیے جائیں گے اور ایک ایسا تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا جائے گا جس میں آئی ایس آئی‘ ایم آئی‘ سپیشل برانچ اور آئی بی کے افسران شامل کیا جائے گا اور تحقیقات کروائی جائیں گی۔