الطاف حسین نے ایم کیو ایم کی قیادت سے دستبرداری کا فیصلہ واپس لے لیا، پرا نی رابطہ کمیٹی تحلیل نئی کمیٹی کے لئے کا ر کنو ں نے سے نا م ما نگ لئے،کارکنوں کو مشکل کی گھڑی میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا ، ان کا ساتھ دوں گا،وکلا ء اور آئینی ماہرین کے ضمیر مر گئے ہیں انصاف کی بات کرنے والوں کی سوئی پرویز مشرف پر اٹک گئی ہے،مشرف پر مقدمہ چلانا ہے تو پی سی او کے تحت ان سے حلف لینے والے ججوں پر بھی مقدمہ چلاوٴ، الطاف حسین کا کارکنان سے ٹیلی فونک خطاب

پیر 15 ستمبر 2014 09:26

لندن(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔15ستمبر۔2014ء) ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کارکنان کے پرزور اصرار پر تحریک کی قیادت سے دستبرداری کا فیصلہ واپس لیتے ہوئے کارکنان سے نئی رابطہ کمیٹی کے اراکین کے لئے نام مانگ لئے ہیں۔ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر کارکنان سے ٹیلی فونک خطاب کرتے ہوئے الطاف حسین نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان کی واحد جمہوری اور لبرل جماعت ہے جسے آج تک خاندانی جماعت نہیں بننے دیا، کبھی اپنے کسی رشتہ دار کو انتخابات لڑایا نہ ہی خود لڑا، میں نے تو کچھ لوگوں کو اپنی گھر کی سیٹ نائن زیرو سے انتخاب لڑوایا حالانکہ وہ اردو بولنے والے نہیں تھے لیکن ایسا اس لئے کیا گیا کہ ہم ثابت کرسکیں کہ ہم قومیت پر یقین نہیں رکھتے اور سندھی مہاجر بھائی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ 12 مئی کو وکلا کو زندہ جلادیا گیا کوئی مہاجروں پر مظالم کی بات نہیں کرتا، ایم کیو ایم جب بھی اقتدار میں آئی تو 12 مئی کا مقدمہ چلائی گی اور جنہوں نے ایم کیو ایم پر یہ الزام لگایا ہے انہیں ثابت کرنا ہوگا کہ کن وکیلوں کو زندہ جلایا گیا لیکن اگر وہ یہ ثابت نہ کرسکیں تو انہیں سزائیں دی جائیں گی۔

(جاری ہے)

الطاف حسین کا کہنا تھا کہ آج انصاف کی بات کرنے والوں کی سوئی پرویز مشرف پر اٹک گئی ہے، ایوب خان اور ضیا الحق نے مارشل لا لگایا لیکن کوئی ان پر مقدمے کی بات نہیں کرتا، 30 ستمبر 1988 کو راہ گیروں پر گولیاں چلائی گئیں، کوئی علی گڑھ واقعے کا ذکر نہیں کرتا جس میں سیکڑوں لوگوں کو جلا کر راکھ کردیا گیا، میں ان سے کہتا ہوں اگر پرویز مشرف پر مقدمہ چلانا ہے تو پی سی او کے تحت ان سے حلف لینے والے ججوں پر بھی مقدمہ چلاوٴ، سابق چیف جسٹس پر بھی مقدمہ چلاوٴ، سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز کیانی پر بھی مقدمہ چلاوٴ۔

انہوں نے کہا کہ آج پورے ملک کے وکیل اور آئینی ماہرین کے ضمیر مر گئے ہیں، مجھے بتایا جائے ماسوائے چند وکیلوں کے کون یہ کہتا ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف آئین کے تحت مقدمہ چلایا جارہا ہے، آج تو یہاں ججز میں انصاف کی بات کرنے کی جرات نہیں۔قائد ایم کیو ایم نے کہا کہ میں اب بے وفائیوں کا مزید بوجھ نہیں اٹھا سکتا، اپنوں کے جھوٹ مزید برداشت نہیں کرسکتا، کارکنوں کو کسی بھی صورت قانون ہاتھ میں لینے کی بات نہیں کرتا لیکن انہیں اب نیا قائد چننا ہی ہوگا، آج 1978 کیکارکنوں کو آگے لانا ہوگا اور رابطہ کمیٹی کے کپڑوں میں جو کلف لگ گیا ہے اسے نکالنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ میں نے یہ تحریک چند خاندانوں کی محلات تعمیر کرنے کے لئے نہیں بنائی تھی، رابطہ کمیٹی کے اراکین نے تحریک کا بیڑہ غرق کردیا اور تحریک کے مقاصد کو پس پشت ڈال دیا۔الطاف حسین نے کہا کہ کارکنوں کو ماورائے آئین گرفتار اور قتل کیا جارہا ہے لیکن آج میں یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ آج کے بعد اگر کوئی بھی کارکن قتل ہوا تو اس کا مقدمہ ڈی جی رینجرز، آئی جی سندھ اور وزیر اعلیٰ سندھ پر بنے گا اور اگر کوئی مقدمہ نہیں بنائے گا تو یاد رکھے کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں بتایا جائے کہ کیا ہم محبت وطن نہیں، اگر ہم محب وطن نہیں تو پھر کوئی محب وطن نہیں، کوئی اردو بولنے والا سندھ کا وزیر اعلیٰ کیوں نہیں بن سکتا، اگر تم شعر پڑھنے والے اور ہم شاہ عبد الطیف بھٹائی کے ماننے والے ہیں۔قائد ایم کیو ایم کا کہنا تھا کہ میں لندن اور کراچی کی موجودہ رابطہ نہیں چاہتا لیکن ایم کیو ایم ایک بڑی جماعت ہے جو رابطہ کمیٹی کے بغیر نہیں چل سکتی۔

انہوں نے کارکنان کے پرزور اصرار پر ایم کیو ایم کی قیادت چھوڑنے کا فیصلہ واپس لیتے ہوئے کارکنان سے نئی رابطہ کمیٹی کے اراکین کے لئے نام مانگ لئے۔ انہوں نے کہا کہ میں آخری بار کارکنان کی بات مان رہا ہوں لیکن آپ کو بھی میرا کہا ماننا ہوگا، کارکنان شیعہ اور سنی کو مارنے والے عناصر پر نظر رکھیں اور رابطہ کمیٹی کے جو اراکین تکلیف کا باعث بنے ہیں انہیں فارغ کردیا جائے گا۔

واضح رہے کہ الطاف حسین نے قیادت کی ذمہ داریاں رابطہ کمیٹی کے سپرد کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں کمیٹی کے اراکین سے درخواستیں کرکے تھک چکا لیکن کئی بار کہنے کے باوجود کمیٹی نے اپنا رویہ تبدیل نہیں کیا جس کے باعث وہ تحریک کی تمام ذمہ داریاں رابطہ کمیٹی کے سپرد کرتے ہیں اور کمیٹی اب جسے چاہے قیادت کے لئے چن لے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے تمام رشتہ دار اور دوست احباب تحریک پر قربان کردیئے اور پارٹی کے ایک ایک فرد کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرتا رہا جس میں ساتھ دینے والوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں تاہم میں کارکنان کی امیدوں پر پورا نہیں اتر سکا اس لئے ان سے، تحریک کی جدو جہد کے دوران شہید ہونے والوں اور ان کے لواحقین سے معافی کا طلب گار ہوں اور امید کرتا ہوں کہ رابطہ کمیٹی پارٹی کو اعلیٰ ظرفی اور ذمہ داری سے چلائے گی-